قرآن فہمی کا اسلوب
قرآن بلاشبہ ایک خدائی کتاب ہے۔ لیکن عملاً وہ انسانی زبان میں اتارا گیا ہے۔ تاکہ وہ انسان کے لیے پوری طرح قابل فہم ہوسکے۔ بعد کے زمانے میں قرآن کے لیے مقدس قرآن (Holy Quran) اور پَوِتر قرآن جیسے الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔ مگر یہ اسلوب قرآن و حدیث میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ یہ اسلوب بلاشبہ مضاہات (سورۃالتوبہ، 9:30) کی قبیل سے ہے۔ وہ اسلام کا ثابت شدہ اسلوب نہیں۔ غالباًاسی ذہن کو ختم کرنے کے لیے قرآن کی 29 سورتوں کا آغاز حروف مقطعات (disjointed letters) سے کیا گیا ہے۔ حروف مقطعات کا اسلوب بتاتا ہے کہ قرآن انسانی زبان میں اتارا گیا ہے، وہ کسی ملکوتی زبان یا ملاِ اعلی کی زبان میں نہیں ہے۔ اسی ذہن کی وجہ سے بعد کے زمانے میں یہ سمجھ لیا گیا کہ قرآن کا مبالغہ آمیز انداز میں احترام کرنا، اور قرآن کے الفاظ کو مخارج کی کامل صحت کے ساتھ دہرا لینا، اسی سے قرآن کا حق ادا ہوجاتا ہے۔
اس غیر مطلوب ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن فہمی کا عمل درست انداز میں جاری نہ رہ سکا۔ قرآن کی بہت سی آیتوں کو ہمارے علماء اور مفسرین سمجھنے سے قاصر رہے۔ کیوں کہ انھوں نے قرآن کے الفاظ کو مقدس سمجھ لیا، جن کو صرف ان کے ظاہری معنی میں لیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے قرآن میں غور و فکر کے لیے اجتہادی اسلوب کا خاتمہ ہوگیا۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146)۔ قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ آیا ہے۔ اس کو لفظی معنی میں لے کر یہ سمجھ لیا گیا کہ بہت سے نبیوں نے اپنے زمانے میں مسلح قتال کیا ہے۔ حالاں کہ قتال کے ان واقعات کا کوئی ثبوت نہ حدیث میں ہے، اور نہ تاریخ میں ۔
حقیقت یہ ہے کہ قتال کا لفظ اس آیت میں انسانی اسلوب کے اعتبار سے آیا ہے، یعنی شدید جدو جہد۔ مثلاً انسانی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس معاملے میں فائٹ ٹو فنیش (fight to the finish) کی اسپرٹ کے ساتھ کام کرنا ہے، یا یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں کرپشن کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ یہ تمام الفاظ شدید جدو جہد (utmost struggle) کے معنی میں ہیں، نہ کہ لفظی اعتبار سے جنگ و قتال کے معنی میں ۔
یہی معاملہ حدیثِ رسول کے ساتھ بھی پیش آیا۔ لوگ حدیث کے کلام کو بالکل لفظی معنی میں لینے لگے۔ مثلاً متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ اللہ کا ایک اسم ِاعظم ہے، اور جو آدمی اسم ِاعظم کے ساتھ دعا کرے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں۔ لوگوں نے یہ ننانوے نام بطور خود متعین کر لیے، اور یہ تلاش کرنا شروع کیا کہ اس میں سے اسمِ اعظم کونسا ہے۔ اس قسم کی کوششوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔کیوں کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ لفظی معنیٰ کے علاوہ بھی مراد ہوسکتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6937)۔
صحیح یہ ہے کہ حدیث میں مذکوراسم ِاعظم سے مراد کوئی متعین نام (name) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کو ایسے اسلوب میں پکارے، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والا ہو تو ایسی دعا اللہ کے یہاں ضرور قبول ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص سے ایک غلطی ہوجائے۔ اس کے بعد اس آدمی کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہو۔ وہ بے تابانہ طور پر سجدے میں گر پڑے، اور روتے ہوئےکہے کہ یا اللہ تو نے مجھ کو ضعیف پیدا کیا۔ اپنے اس ضعف کی بنا پر مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اب تیرے سوا کون ہے، جو میری اس غلطی کو سنبھالے، جو مجھ کو اس غلطی کے انجام سے بچائے۔ خدایا تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کون ہے جس سے میں امید کروں کہ وہ میری غلطی کو سنبھالے گا، اور مجھ کو میری غلطی کے انجام سے بچائے گا۔ آدمی یہ الفاظ بولے، اور اس کی آنکھیں بےتابانہ طور پر آنسو بہا رہی ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنی تنہائیوں میں اس طرح اللہ کو پکارے۔ تو اس کا یہ پکارنا اللہ کو اسم ِاعظم کے ساتھ پکارنا ہو گا، اور عین ممکن ہے کہ اس کی پکار اللہ کےیہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرلے۔