انابت الی اللہ
انابت کا لفظی مطلب ہے، لوٹنا، بار بار لوٹنا: رجوع الشیء مرّة بعد أخرى (to return from time to time)۔ یہی انابت کی اصل ہے۔ انابت کے تمام استعمالات میں یہی مفہوم بطور اصل پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ جب اللہ کی نسبت سے بولاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر ڈسٹریکشن کے بعد دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا۔ انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ خالق کا تصور اس کی فطرت کےساتھ پوری طرح وابستہ (interwoven)ہے۔ یہ وابستگی اتنی گہرائی کے ساتھ ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر جب انسان مطالعہ کرتا ہے، اور غور وفکر سے کام لیتا ہے تو خالق کے ساتھ اس کی فطرت کی یہ وابستگی اور بھی زیادہ گہری ہوجاتی ہے۔
مگر اسی کے ساتھ دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، جہاں ہر وقت اس کا سابقہ خالق کے سوا دوسری چیزوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی توجہ اپنے خالق سے دور (distract) ہوجاتی ہے۔ وہ خالق کے بجائےکسی اور کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جب آدمی کو خالق کی معرفت ہوچکی ہو، اس نے اپنے رب کو دریافت کرلیاہو تو خدا کے ساتھ اس کا گہرا تعلق بار بار زندہ ہوگا۔ وہ بار بار اپنے رب کی طرف لوٹے گا، اسی کو رجوع الی اللہ کہا گیا ہے، یعنی رجوع الی اللہ اور انابت دونوں اپنے معنی کے اعتبار سے ایک ہیں۔
انابت، صاحبِ معرفت انسان کی ایک مستقل خصوصیت ہے۔ جس آدمی کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوچکی ہو، وہ اپنے اندرونی تقاضے کے تحت اس کا تحمل نہیں کرے گا کہ اس کی توجہ اپنے رب کی طرف سے ہٹ کر کسی اور کی طرف چلی جائے۔ اس لیےاس طرح کی صورت حال میں وہ بار بار لوٹے گا، اور مزید شدت کے ساتھ اپنے رب سے جڑ جائے گا— اسی کا نام توجہ الی اللہ یا انابت الی اللہ ہے۔