دو مختلف انجام
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِین(صحیح مسلم، حدیث نمبر 817)۔ یعنی اللہ اس کتاب (قرآن ) کے ذریعے ایک قوم کو اٹھاتا ہے، اور دوسری قوم کو گرادیتا ہے۔ اس حدیث میں دو مختلف قوموں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں خود ایک قوم کی مختلف دو حالتوں کا ذکر ہے۔قوم سے مراد مسلم قوم ہے، نہ کہ کوئی غیر مسلم قوم۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ذریعے مسلمانوں کا عروج بھی ہوگا، اور قرآن کے ذریعے ان پر زوال کا دور بھی آئے گا۔
ایک ہی کتاب (قرآن) کس طرح دو مختلف انجام کا سبب بنتی ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن کے مطالعے کے دو طریقے ہیں۔ اگر قرآن کا مطالعہ تطبیقی انداز (applied way) میں کیا جائے تو قرآن کی حامل قوم اپنے حالات میں اس سے رہنمائی پالے گی، اور اس طرح ان کے لیے ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر قرآن کا مطالعہ غیر تطبیقی انداز (non-applied way) میں کیا جائے تو ایسے لوگوں کا حال حضرت عائشہ کی زبان میں وہی ہوگا: أُولَئِکَ قَرَءُوا، وَلَمْ یَقْرَءُوا (مسند احمد، حدیث نمبر24609)۔ یعنی قرآن کا حامل ہونے کے باوجود وہ قرآن کے فیض سے محروم رہ گئے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک مثال درج کی جاتی ہے۔
تطبیقی تفسیر
ملت کی بعد کی نسلوں میں قانونِ فطرت کے مطابق زوال آتا ہے۔ زوال آنے کے بعد ملت کے اندر احیائے نو کا کام کس طرح کیا جائے، اس کا طریقہ قرآن میں پیشگی طور پر بتادیا گیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (سورۃ الحدید،57:17)۔
یہاں ایک فطری تمثیل کے ذریعے ملت کے احیاء نو کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زمین پر دو موسم آتے ہیں، سوکھے کا موسم اور بارش کا موسم۔ سوکھےکے موسم میں کھیت سوکھ جاتے ہیں، کھیت کی ہریالی باقی نہیں رہتی۔ لیکن بارش کا موسم آتے ہی کسان دوبارہ پانی اور کھاد کو استعمال کرکے اپنے کھیت کو تیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ سوکھی زمین دوبارہ ہری بھری زمین بن جاتی ہے۔
فطرت کی یہ مثال بتاتی ہے کہ ملت کے رہنماؤں کو ملت کے احیائے نو کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ ایسا نہ کریں کہ سوکھی زمین کو کسی دشمن کی سازش کا نتیجہ بتا کر احتجاج کی تحریک شروع کردیں۔ بلکہ وہ کسان کی طرح یہ کریں کہ ملت کی زمین کو دوبارہ ہموار کریں، اور پانی کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ زمین میں بیج بودیں، اور پودے، یعنی ملت کے افراد کو پانی پہنچا کر زراعت کے اصول کو ملت کے معاملے میں اپلائی (apply) کرتے ہوئےملت کو دوبارہ شاداب بنائیں۔ جس طرح کسان کی محنت مبنی بر پودا ہوتی ہے، اسی طرح ملت کے رہنماؤ ں کی ساری محنت مبنی برافراد ہونی چاہیے۔ ملت کا زوال دراصل افراد کے زوال کا نام ہے۔ ایسا وقت آنے پر ملت کے رہنماؤں کو یہ کرناہے کہ وہ تعمیرِ افراد کا کام کرکے ملت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ملت کے احیاء کا کام افراد کے احیا سے شروع ہوتا ہے۔افراد کے اندر اسپرٹ کو زندہ کرنے کے بعد ملت اپنے آپ زندہ ہوجاتی ہے۔
قرآن کی تفسیریں مختلف زبانوں میں بڑی تعداد میں لکھی اور چھاپی گئی ہیں۔ مگر راقم الحروف کے علم کے مطابق یہ تفسیریں غیر تطبیقی انداز میں لکھی گئی ہیں۔ قرآن کی تفسیر کے بارے میں مسلم اہل علم کا غالباً یہی وہ انداز ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے۔ مختلف زمانوں میں لکھی جانے والی یہ تفسیریں عملاً اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں، جس کو یہاں غیر تطبیقی انداز کہا گیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی قابلِ ذکر استثنا راقم الحروف کے علم میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے دروس اور تفاسیر کی کثرت کے باوجود اس کا مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔