جنت کا تجربہ
پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے:فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَأَحَدُہُمْ بِمَسْکَنِہِ فِی الجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2440)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کےقبضے میں محمد کی جان ہے، ان میں کا کوئی شخص جنت میں اپنے گھر کو اس سے زیادہ پہچانے گا، جتنا کہ وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا تھا۔ دنیا کی زندگی میں جو گھر آدمی کو رہنے کے لیے ملتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو جنت نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان اس کو ایک خدائی عطیے کے طور پر دریافت کرے تو اس کا گھر اس کو اتنی بڑی نعمت معلوم ہوگا، جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں اس کا جنتی گھر دے دیا۔
ایک مومن دنیا میں اپنا ایک گھر بنائے، اور وہ وہاں رہنا شروع کردے۔ تو اس کی معرفت کی بنا پر اس کے لیے یہ گھر عام قسم کا ایک گھر نہیں ہوگا۔ وہ ہر لمحہ اپنے دنیا کے گھر کی صورت میں جنت کے گھر کو دریافت کرے گا۔اس کا نعمت سے بھرا ہوااحساس اس کے لیے اپنے گھر کو ایک اعلیٰ تجربہ بنادے گا۔ وہ ہر چیز میں اللہ کی نعمت کو دریافت کرے گا۔ وہ ہر چیز میں اپنے جنتی گھر کی جھلک دیکھے گا۔ یہ احساس دھیرے دھیرے اتنا شدید بن جائے گا کہ اس کو محسوس ہوگا جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں پیشگی طور پر وہ گھر دے دیا ہے جو جنت کی دنیا میں اس کو ملنے والا ہے۔
اس کا یہ بڑھا ہوا احساس اس کو اس قابل بنادے گا کہ وہ ایسی دعائیں کرے جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والی ہوں، جو اس کے لیے اسم اعظم کی دعا بن جائے۔ مثلاً شکر کے گہرے احساس کے ساتھ اس کی زبان سے نکلے گا کہ خدایا تو نے اسی دنیا میں مجھ کو ایک جنتی گھر دے دیا۔ اب کیا تو ایسا کرے گا کہ آخرت میں مجھ سے میرا جنتی گھر واپس لے لے۔ کیا تیرے رحیم و کریم ہونے کی صفت یہ چیز گوارا کرے گی کہ ایک چیز مجھ کو دےدے، اور پھر اس کو مجھ سے واپس لےلے۔