قولِ بلیغ
قرآن میں دعوت کے ایک اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔اس آیت میں قول بلیغ کا مطلب ہے، ایسا قول جو سننے والے کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ جس کو سن کر وہ سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ ایسا قول جو آدمی کے ذہن کو ٹریگر (trigger) کردے، یہاں تک کہ وہ تخلیقی (creative) انداز میں سوچنے لگے۔مثال کے طور پر ہندستان کے مسلمانوں کو لیجیے۔ اگر آپ ہندستان کے مسلمانوں کو یہ خبر دیں کہ یہ ملک ان کے لیے مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ اس ملک میں ان کے لیے نفرت اور نارواداری کا ماحول ہے۔ یہاں ان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ان کے تہذیب و کلچر کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، وغیرہ۔ تو اس طرح کی باتوں سے مسلمانوں کو صرف مایوسی ہوگی۔ ان کو کوئی رہنمائی نہیں ملے گی۔
اس کے برعکس، اگر آپ مسلمانوں سے یہ کہیں کہ تم قرآن کی ایک آیت کو دوبارہ پڑھو، اور اس میں جو فطرت کا قانون بتایا گیا ہے، اس کو سمجھو۔ وہ آیت یہ ہے:أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھا لیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے لئے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کرجاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچا نے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جو گروہ اپنے اندر نفع بخشی کی صلاحیت پیدا کرے، اس کو اس دنیا میں مکث (استحکام) حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جس گروہ کے پاس صرف شکایت اور احتجاج (protest) کی زبان ہو، وہ اس دنیا میں جھاگ کی مانند ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں کوئی باعزت جگہ حاصل ہونے والی نہیں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی گروہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو نافع گروہ (giver community) کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جن کو انسانی لغت میں لینے والا گروہ (taker community) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا پیغام، عقل کا تقاضا، اور فطرت کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں شکایتی گروہ کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ دنیا صرف ان لوگوں کی دنیا ہے، جو گیور(giver) کمیونٹی بن کر رہیں۔ جو لوگ لینے والے گروہ بنے ہوئے ہوں، ان کے لیے فطرت کے قانون کے مطابق صرف یہ مقدر ہے کہ وہ شکایت اور احتجاج میں پڑے رہیں، اور آخر میں ان کو محرومی کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہو۔
جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ عرب جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے انڈیا کو شاندار کلچر (brilliant culture) دیا۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کیوں انڈیا کی ایک پسماندہ کمیونٹی بن کر رہ گئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں انڈیا میں آئے تھے۔ وہ زمانہ قدیم دستکاری کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے کے اعتبار سے عربوں نے انڈیا کو بہت کچھ دیا۔مثلا آبپاشی کے لیے رہٹ (noria) کا طریقہ۔ یعنی ایساپہیّہ جس کے محیط کے گرد ڈول لگے ہوتے ہیں اور جو ہسپانیہ، مشرقِ وُسطیٰ اور ایشیا میں پانی کھینچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر بعد کو جب برٹش لوگ انڈیا میں آئے تو وہ اپنے ساتھ مشینی دور (mechanical age) لے آئے۔ ماڈرن تعلیم گاہوں میں اس نئے ٹکنیک کی تعلیم ہونے لگی۔ مگر مسلم رہنماؤں نے ان نئے تعلیم گاہوں کو مسلمانوں کے لیے قتل گاہ قرار دے دیا۔ اس طرح مسلمان نئے دور کے لحاظ سے پیچھے ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی پسماندگی کا یہی اصل سبب ہے۔