ایک با اصول انسان
حافظ قاری سید شبیر احمد صاحب عمری(پیدائش1940:) جامعہ دارالسلام، عمر آباد، تامل ناڈو میں شعبہ تحفیظ القرآن کے مدیر تھے۔ 25 مارچ 2018 کو 78 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مولانا سید اقبال احمد عمری ان کے بارے میں اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’وہ تقریباً 42سال تک جامعہ کے شعبہ تحفیظ القرآن کے ذمے دار رہے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اتنی طویل مدت تک ایک ہی ادارہ سے وابستہ رہنے کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے ادارے کے آداب واصول کا ہمیشہ پاس ولحاظ رکھا۔ یعنی جب وہ اپنے ماتحتوں سے کام لیا کرتے تھے تو جامعہ کے اصول کے مطابق اپنی صوابدید کے مطابق کام لیتے، اور جہاں ادارے کے ذمے داران مشورہ طلب کرتے تو اپنی رائے کا اظہار بھی کیا کرتے۔اس کے بعد اگر اجتماعیت کی طرف سے ان کی رائے کے خلاف کوئی فیصلہ ہوجاتا تو فِیہِ خَیر کہہ کر خاموشی کے ساتھ سرتسلیم خم کرلیتے۔ مجلس سے باہر آنے کے بعد نہ ہی گلہ کرتے، اور نہ ہی شکوہ کرتے، یعنی منفی مہم (negative campaign)نہیں چلاتے۔ الغرض اجتماعی فیصلے کے بعد مکمل طور پر اس کی پابندی کرتے،اپنی مرضی نہیں چلاتے‘‘۔
ایسے ہی افراد ہیں جن کو با اصول انسان کہا جاتا ہے۔ با اصول انسان کی تعریف ایک لفظ میں یہ ہے - اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی۔ وہ جب تک کسی ادارے سے منسلک ہو با اصول انداز میں اپنی ذمے داری اداکرے۔ اگر اس کو کوئی اختلاف پیش آئے تو مثبت انداز میں ذمے داروں سے اس کا ذکر کردے، اور اس کے بعد اپنے کام میں لگا رہے۔ دوسروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنا، با اصول انسان کا طریقہ نہیں۔ با اصول آدمی کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ دوسرے آدمی کا اعتراف کرے، اور کسی معاملے میں اگر اس کی تعریف کی جائے تو وہ اس کا کریڈٹ دوسرے کو دے دے۔ وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے، اور نہ دوسرے کے اعتراف میں کوئی کمی کرے۔ایسا آدمی موت سے پہلے ایک با اصول انسان ہوتا ہے، اور موت کے بعد لوگوں کے لیے ایک یادگار نمونہ۔