پیغمبر اسلام — شخصیت کے چند نمونے
مثبت مزاج
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مربی اللہ تعالیٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے میں مختلف موقع پر جو رہنمائی اتری ان میں سے ایک وہ تھی جس کو مثبت مزاج کی تعمیر کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بظاہر ناخوشگوار دکھائی دیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں بھی بار بار ایسے واقعات پیش آئے۔ ایسے موقع پر ہر بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی دی گئی کہ بظاہر ایک غیر موافق واقعے میں بھی کس طرح موافق پہلو چھپا ہوا ہے۔
قدیم مکہ میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت توحید کا آغاز کیا تو وہاں سخت قسم کی مشکلات پیش آئیں۔ اس وقت قرآن میں یہ رہنمائی دی گئی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(94:5-6)۔یعنی مشکلات سے نہ گھبراؤ، کیوں کہ اس دنیا میں ہرمشکل کے ساتھ آسانی موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح آپ کے مشن کے بارے میں آپ کے مخالفین نے بڑے پیمانے پر جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا۔ آپ پر طرح طرح کے عیب اور الزام لگائے گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی اتری: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (94:4)۔یعنی اس پروپیگنڈے کے ذریعہ تمھارا چرچا ہر طرف پھیل رہا ہے۔ اس لیے اس کو مخالفانہ پروپیگنڈا نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنا اور اپنے مشن کا رفعِ ذکر سمجھو۔
تقریباً 20 سال تک تبلیغ کرنے کے باوجود آپ اور آپ کے ساتھی عرب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے، اور مشرکین اکثریت میں تھے۔ اس وقت آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو فطرت کا ایک قانون یاد دلاتے ہوئے قرآن میں کہاگیا: کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ (2:249)۔ یعنی اس دنیا میں کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ عددی اقلیت رکھنے والا گروہ، عددی اکثریت کے اوپر غالب آیا۔
اسی طرح 3 ہجری میں غزوۂ اُحد پیش آیا۔ ا س میں مسلمانوں کو مشرکین کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ یہ بظاہر ایک دل شکن واقعہ تھا۔ مگر اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رہنما آیتیں اتریں، وہ دوبارہ اس کے روشن پہلو کی طرف نشاندہی کرنے والی تھیں۔ ان میں سے قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (3:140)۔ یعنی احد کی جنگ میں اگر تم کو زخم پہنچا ہے تو اس سے پہلے بدر کی جنگ میں مشرکین کو زخم پہنچ چکا ہے۔ اور ہم ان ایام کولوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں ۔
اسی طرح 6 ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان وہ واقعہ پیش آیا جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ یہ صلح بظاہر مسلمانوں کی سیاسی شکست کے ہم معنی تھی۔ مگر قرآن میں جب اس پر تبصرہ کیاگیا تو برعکس طورپر، اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا: إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا (48:1) یعنی ہم نے تم کو تمھارے حریف کے اوپر کھلی فتح دے دی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بظاہر سیاسی شکست کے باوجود اس معاملے میں تم کو اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے، جو آخر کار مکمل فتح بننے والی ہے،وغیرہ۔اس خدائی تربیت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسا انسان بنا دیا جو منفی طرز فکر سے مکمل طور پر خالی تھا۔ آپ مثبت فکر میں اتنا زیادہ بڑھے ہوئے تھے کہ بلاشبہ آپ کو دنیا کا سب سے بڑا مثبت مفکر (positive thinker) کہا جاسکتا ہے۔
اللہ پر اعتماد
ہجرت کے سفر میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت آپ کے ساتھ صرف حضرت ابو بکر صدیق تھے۔ یہ بے حد نازک سفر تھا۔ مکہ کے لوگ آپ کے جانی دشمن تھے۔ یہ یقینی تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کریں گے۔ چناں چہ آپ نے شدید احتیاط کے ساتھ یہ سفر فرمایا، حتٰی کہ آپ کو مکہ سے مدینہ کی طرف جاناتھا، لیکن آپ الٹے رخ پر چل کر غارِ ثور میں پہنچے اور وہاں حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ چھپ کر چند دن قیام کیا۔
مکہ کے سرداروں کو جب آپ کی ہجرت کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو چاروں طرف دوڑایا، تاکہ وہ آپ کو مدینہ پہنچنے سے پہلے پکڑ لیں اور نعوذ باللہ آپ کو قتل کرڈالیں۔ آپ ابھی غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے کہ مکہ کے کئی لوگ آپ کی تلاش میں وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت وہ اتنے قریب تھے کہ غار کے اندر سے وہ صاف نظر آرہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جب یہ دیکھا کہ تلوار لیے ہوئے یہ لوگ غار کے منہ تک پہنچ گئے ہیں توانھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف نظر ڈالے تو وہ ضرور ہم کو دیکھ لے گا۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا:یَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا(سیرۃ ابن کثیر 2/242-43)۔ یعنی اے ابوبکر، ان دو کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے، جن کا تیسرا اللہ ہو۔
پیغمبر اسلام کی زبان سے نکلا ہوا یہ کلمہ اتنا عظیم ہے کہ شاید پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں۔ اس وقت آپ بلا شبہ انتہائی پُر خطر حالات میں تھے، لیکن اللہ پر اعتماد اتنا زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ کوئی بھی طوفان اس کو متزلزل نہیں کرسکتاتھا۔ یہی بے پناہ اعتماد تھا جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ ایسے پُر خوف حالات میں اتنا زیادہ بے خوفی کا کلمہ آپ کی زبان سے نکلے۔
عبادت کی کیفیت
پیغمبر اسلام روزانہ خدا کی عبادت کرتے تھے، دن کو بھی اور رات کو بھی۔ عبادت کے وقت آپ کے دل کی جو کیفیت ہوتی تھی اس کا اندازہ ایک روایت سے ہوتا ہے۔ حضرت علی بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس میں ذکر ودعا کے کون سے الفاظ آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے وقت رکوع میں جھکتے تھے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے تھے: اللہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَکَ سَمْعِی، وَبَصَرِی، وَمُخِّی، وَعَظْمِی، وَعَصَبِی (صحیح مسلم، حدیث نمبر 771)۔ یعنی اے اللہ میں تیرے آگے جھک گیا،اور میں تجھ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا، تیرے آگے جھک گئے میرے کان، اور میری آنکھ، اور میرا دماغ اور میری ہڈیاں اور میرے اعصاب۔
اسی طرح حضرت علی بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام جب سجدے کے وقت زمین پر اپنا سر رکھتے تھے تو اس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوجاتے تھے: اللہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ، تَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 771)۔ یعنی اے اللہ میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، اور میں تجھ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کیا، میرا چہرہ اس کے آگے جھک گیا جس نے اس کو پیدا کیا اور اس کی صورت گری کی اوراس کے کان اور آنکھ کو بنایا۔ پس بابرکت ہے اللہ، سب سے بہتر تخلیق کرنے والا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام جب عبادت میں مشغول ہوتے تھے تو اس وقت ان کے جذبات کیا ہوتے تھے۔ اس وقت وہ خدا کی عظمت وہیبت کے احساس میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ خدا کی برتری اور اس کے مقابلے میں اپنے عجز کا تصور ان کے سینے میں ایک طوفان کی حیثیت اختیار کرلیتا تھا۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے خدائے عظیم وکبیر کے سامنے حاضری کے ہم معنیٰ بن جاتی تھی۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے انتہائی حد تک ایک زندہ عمل تھا، نہ کہ محض کچھ رسمی اعمال کی ادایگی۔
ہدایت کے لئے تڑپنا
قر آن کی سورۃ الشعراء میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے:تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ۔إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِینَ (26:2-4)۔یعنی یہ واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ شاید تم اپنے کو ہلاک کر ڈالو گے اس پر کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر ہم چاہیں تو تم پر آسمان سے نشانی اتاردیں، پھر ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔
یہ اور اس طرح کی دوسری شہادتیں بتاتی ہیں کہ پیغمبر اسلام اپنے مخاطبین کی ہدایت کے لیے کتنا زیادہ حریص تھے۔ ’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلو گے‘‘ کا جملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو پیغمبر اسلام کو اپنے مخاطبین کے حق میں تھی۔دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبے سے ابلتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اسی کامل خیر خواہی کے تحت اپنی قوم کوحق کی دعوت پہنچائی۔ اور آپ نے اپنی تمام کوششیں اس کی راہ میں صرف کردیں۔ اس کے باوجود ان کی اکثریت آپ کے پیغام کو ماننے پر راضی نہ ہوئی۔ اس کے بعد آپ کا حال یہ ہوا کہ آپ ان کی ہدایت کے غم میں ہلکان ہونے لگے۔ آپ کے دن کا چین رخصت ہوگیااور آپ کی رات کی نیند غا ئب ہوگئی۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ (شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کر لوگے) کا مطلب آپ کو اس سے روکنا نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ آپ نے اپنی پیغمبرانہ ذمے داری کو اس کی آخری اور انتہائی حد تک ادا کردیا۔ دوسرے کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو ہلکان کرنا، پیغمبر کی شخصیت کا اہم ترین وصف ہے۔ اس وصف میں آپ بلا شبہ کمال کے درجے کو پہنچے ہوئے تھے۔
انسان کا احترام
قدیم مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ یہودی قبیلے بھی آباد تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ پیغمبراسلام مدینہ کے ایک مقام پر تھے۔ اس وقت وہاں سے ایک جنازہ گزرا۔ آپ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازے کو دیکھ کر آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ اس وقت آپ کے کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ دیکھ کر کسی نے کہا کہ اے خدا کے رسول یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: أَلَیْسَتْ نَفْسًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)۔یعنی کیا وہ انسان نہ تھا۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے دل میں دوسرے انسانوں کے بارے میں کس قسم کے جذبات ہوتے تھے۔ آپ ہر انسان کو انسان سمجھتے تھے۔ ہر انسان آپ کو قابل احترام نظر آتا تھا، خواہ وہ کسی بھی قوم یا ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر انسان کو آپ خدا کی ایک مخلوق سمجھتے تھے۔ ہر انسان کے اندر آپ کو وہی کاریگری دکھائی دیتی تھی جو آپ کو خود اپنے وجود میں دکھائی دیتی تھی۔ انسان کو دیکھ کر آپ انسان کے خالق کو یاد کرنے لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے دل میں ہر انسان کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ تھا۔ انسان سے نفرت کرنا آپ کے مزاج کے بالکل خلاف تھا۔
آخرت کی فکر
ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنی ایک اہلیہ کے مکان میں تھے۔ ان کے یہاں ایک خادمہ تھی۔ آپ نے کسی فوری ضرورت کے تحت خادمہ کو باہر بھیجا۔ اس نے آنے میں دیر کی۔ معلوم ہوا کہ وہ راستہ میں بچوں کا کھیل دیکھنے کے لیے کھڑی ہوگئی تھی۔خادمہ جب تاخیر کے ساتھ واپس آئی تو اس کو دیکھ کر آپ کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوگئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ سے کہا:لَوْلَا خَشْیَةُ الْقَوَدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَأَوْجَعْتُکِ بِہَذَا السِّوَاک (الادب المفرد، حدیث نمبر 184)۔ یعنی اگر قیامت میں بدلے کا ڈر نہ ہوتا تو میں تم کو اس مسواک سے مارتا۔
پیغمبر اسلام لوگوں کو قیامت کی پکڑ سے ڈراتے تھے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈرانا یک طرفہ نہ تھا۔ آپ جس طرح دوسروں کو آنے والی قیامت سے ڈراتے تھے، اسی طرح آپ خود بھی سب سے زیادہ اس سے ڈر محسوس کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگ دنیا میں اس طرح رہیں کہ ان کے دل میں خدا کی پکڑ کا خوف سمایا ہوا ہو۔ یہی خود آپ کی اپنی حالت بھی تھی۔ آپ آنے والی قیامت کو اپنے سمیت ہر ایک کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ کا پیغمبر ہونا آپ کو اخروی مسئولیت سے بے نیاز بنادے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میں آتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے، اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔