داعی کی حفاظت
قرآن کی سورہ یٰسین میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کو اُن کے معاصرین نے ہمیشہ استہزا کا موضوع بنایا — ’’افسوس ہے بندوں پر، جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا استہزا کرتے رہے‘‘(36:30)۔ دوسری طرف، قرآن میں ہے کہ فرشتوں کے ذریعے پیغمبروں کی خصوصی حفاظت کا انتظام رہتا ہے: إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا لِیَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَأَحْصَى کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا (72:27-28)۔ یعنی وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے محافظ لگا دیتا ہے، تاکہ اللہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور جو کچھ ان کے پاس ہے، اللہ اُن کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور اُس نے ہر چیز کو گِن رکھا ہے۔
دونوں قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں میں فرق کا معاملہ کیا ہے۔ جہاں تک سامعین کا معاملہ ہے، اُن کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ پیغمبر کی دعوت کو قبول کریں یا وہ اس کو رد کردیں۔ اِسی طرح پیغمبر کے گرد بڑی تعداد اکھٹا ہو یا نہ ہو۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کی دعوت کا معاملہ ہے، اِس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے کامل حفاظت کا انتظام فرمایا ہے۔ ہر پیغمبر کے ساتھ ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہو۔ پیغمبر کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ خدائی پیغام کو بے کم وکاست، لوگوں تک پہنچا دے۔ فرشتوں کی مسلسل حفاظت اِس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ خدائی دعوت کی نظری اشاعت ہر حال میں پوری ہو کر رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ یہ سنت جس طرح پیغمبروں کے معاملے میں پوری ہوئی، اُسی طرح بعد کے زمانے میں وہ ہر سچے داعی کے ساتھ لازماً پوری ہو کر رہتی ہے۔ سچا داعی مسلسل طورپر فرشتوں کی حفاظت میں رہتاہے، تاکہ اس کا دعوتی مشن ہر حال میں پورا ہو کر رہے، کوئی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کی تکمیل میں مانع نہ بن سکے۔