جنت کا حصول
جنت ایک صاحب معرفت کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ جنت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی بہت سی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّہُ لا یُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُہُ،قَالُوا:وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:وَلا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّہُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَة(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6467)۔ یعنی درستی اوراعتدال پر قائم رہو اور پر امید رہو، کیوں کہ کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں، اے اللہ کےرسول۔ آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ مغفرت اور رحمت سے مجھ کوڈھانپ لے۔
جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat)ہے۔ جنت وہ آئڈیل دنیا ہے، جہاں انسان کو ابدی عمر ملے گی۔ جہاں کسی قسم کا حزن (sorrow) نہ ہوگا۔ جو ہر قسم کی محدودیت (limitations) سے خالی ہوگی۔ جہاں انسان کو کامل معنوں میں فُل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ جہاں نہ کوئی تکلیف ہوگی، اور نہ کوئی بورڈم (boredom) ہوگا۔ ایسی دنیا بلاشبہ ایک بیحد قیمتی دنیا ہے۔ کوئی انسان اس پر قادر نہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ دنیا کی قیمت ادا کرسکے۔
یہ جنت کسی کو اس کے عمل کی قیمت کے طور پر نہیں ملے گی۔ وہ صرف ان منتخب افراد کو ملے گی، جن کو رب العالمین اس قابل پائے کہ وہ جنت میں اعلیٰ اخلاق ( سورۃالقلم، 68:4) کے ساتھ رہ سکتے ہوں۔ جنت میں پوری انسانی تاریخ کے منتخب افراد بسائے جائیں گے۔ یہ اعلیٰ درجے کی ایک رفاقت کا ماحول ہوگا۔ یہ ایسے لوگوں کی دنیا ہوگی، جو فرشتوں کی رپورٹ کے مطابق، اپنی سوچ اور اپنے کردار کے اعتبار سے اس کا اہل بنے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے— وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت ( سورۃ النساء، 4:69)۔جنت ایک انعام ہے، جنت عمل کا معاوضہ نہیں۔