قرآن کا مشن
قرآن کی سورہ الزخرف مکی دور کے نصف آخر میں نازل ہوئی۔ غالباً یہ سفر طائف کے بعد کا زمانہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مخالفین کی مخالفت نہایت شدیدہوچکی تھی۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتری:أَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا أَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِینَ (43:5)۔ یعنی کیا ہم اس قرآن کو تم سے صرف اس وجہ سے روک لیں کہ تم حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو۔اس آیت میں قرآن کو روکنے کا مطلب قرآنی مشن کو روکنا ہے۔ قرآن کی اس آیت میں اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام جس مشن کو لے کر اٹھے ہیں، وہ کوئی عام مشن نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خدائی مشن ہے، اور خدائی مشن کے لیے یہ سنتُ اللہ ہے کہ وہ اپنے آخری نشانے تک پہنچے۔
یہ سنتُ اللہ آج بھی قائم ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص یا گروہ ایسے مشن کو لے کر اٹھے، جو حقیقی معنوں میں اللہ کا مشن ہو تو اس کے لیے اللہ کی نصرت یقینی ہوجائے گی۔ دوبارہ اس کے لیے اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ کوئی بھی صورت حال اس کو درمیان میں روکنے پر قادر نہ ہو۔ ایسے مشن کے لیے دوبارہ یہ مقدر ہوگا کہ وہ ضرور اپنے نشانے تک پہنچے۔ کوئی طاقت درمیان میں اس کا راستہ روکنے پر قادر نہ ہو۔
مثلاً قرآن کے متعلق اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ قرآن سارے عالم کے لیے نذیر (warner) بنے۔ اب جب کہ دنیا میں عالمی کمیو نی کیشن کا زمانہ آگیا ہے، اور یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جدید کمیونی کیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے قرآن کو عالمی سطح پر پہنچادیا جائے، تو دوبارہ اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ جو گروہ بے آمیز انداز میں اس مشن کو لے کر اٹھے، جس کا نشانہ صرف یہ ہو کہ وہ قرآن کے خالص پیغام کو ساری دنیا تک پہنچادے، ایسے مشن کا معاملہ کسی عام مشن کا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے مشن کے ساتھ ضرور ایسا ہوگا کہ وہ اللہ کی خصوصی مدد کے ذریعے اپنی تکمیل تک پہنچے۔ کوئی بھی طاقت اس کے اس پرامن مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ مشن پورے معنوں میں ایک بے آمیز مشن ہو، اور اس مشن کے چلانے والے یک طرفہ طور پرامن طریقہ پر قائم ہوں۔