فہمِ دین

قرآن دین خداوندی کو سمجھنے کا واحد مستند ماخذ ہے۔ قرآن اللہ رب العالمین کی آخری کتاب ہے۔ وہ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا۔ یہ قبل از سائنس دور (pre-scientific age) کا زمانہ تھا۔ اس وقت اگر قرآن میں وہ اسلوب اختیار کیا جاتا جو سائنس کے ظہور کے بعد بیسویں صدی میں رائج ہوا ہے۔ تو یہ اس مشہور مثل کا مصداق بن جاتا:

Putting the cart before the horse

یعنی سائنٹفک اسلوب کے ظہور سے پہلے سائنٹفک اسلوب میں بات کرنا۔ قرآن و حدیث میں اعلیٰ معرفت کی باتیں ہیں، لیکن اس کا اسلوب قدیم ہے۔ اگر یہ باتیں جدید اسلوب کلام میں ہوتیں تو اس قسم کی باتیں معاصر مخاطبین کے لیے معمہ بن جاتیں۔ سننے والوں کا ذہن ایڈریس نہ ہوتا، اور کلام میں وہ تاثیر پیدا نہ ہوتی جو مطلوب تھی۔

مثال کے طور پر حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے۔ قدیم عراق کے بادشاہ سے ان کا ایک دعوتی مکالمہ ہوا۔ اس میں انھوں نےبادشاہ سے ایک بات یہ کہی:فَإِنَّ اللَّہَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ (2:258)۔ یعنی اللہ سورج کو پورب سے نکالتا ہے تم اس کو پچھم سے نکال دو۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم اگر یہ کہتے کہ خدا کے قائم کردہ قانون کے مطابق صبح و شام کا نظام ہیلیو سینٹرک سسٹم (heliocentric system) کے اصول پر قائم ہے، تم اس کو جیو سنٹرک سسٹم (geocentric system) پر قائم کردو۔ تو مخاطب اس جملے کا کوئی مطلب نہ سمجھتا، اور بات بے اثر ہوکر رہ جاتی۔

اسی طرح کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینے میں سورج گرہن (solar eclipse) پڑا، اتفاق سے اس دن پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آج پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوا ہے، اس لیے سورج گرہن لگا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس موقع پر لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ان کو خطاب کیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں پر گرہن نہ کسی کی موت سے لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر1052)۔ اس کے برعکس، پیغمبر اسلام اس وقت اگر ایسا کرتے کہ آپ بعد کو ہونے والی دریافت کی زبان بولتے، اور یہ کہتے:

Eclipse is an astronomical phenomenon. It occurs due to the well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes at a particular point in time in the vast space.

پیغمبر اسلام اگر ایسی زبان بولتے تو وہ لوگوں کے لیے معمہ بن جاتا۔ آپ لوگوں کے اندر جو مبنی بر ذکر اللہ سوچ پیدا کرنا چاہتے تھے، وہ پیدا نہ ہوتی۔قرآن فہمی کے سلسلے میں اس اسلوب کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ جو لوگ اس اصول کو نہ جانیں، وہ موجودہ زمانے میں قرآن کے اعلیٰ معانی کو سمجھ نہیں سکتے، خواہ وہ روایتی قسم کے فنون میں کتنے ہی زیادہ مہارت رکھتے ہوں۔

چند مثالیں

دور نبوت کے اسلام میں کئی چیزیں عصری حالات (age factor) کی بنا پر ظہور میں آئیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے ایک متلاشی (seeker) انسان تھے۔ آپ اکثر خاموش رہتے، اور سوچتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں آپ اکثر تنہا غار حرا (cave of Hira) میں چلے جاتے، اور وہاں کئی دن تک قیام کرتے۔ یہ غار جبل حرا کے اوپر واقع تھا، وہ مسجد حرام سے تقریباچار کلو میٹر کی دوری پر تھا۔ وہاں آپ کھانے پینے کا کچھ معمولی سامان لے کر جاتے اور کئی روز قیام کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول عصری کلچر کی بنا پر تھا۔ اس زمانے کے حنفاء پہلے سے ایسا ہی کر رہے تھے۔ حنفاء کا لفظ قدیم زمانے میں متلاشیان حق (truth seekers)کے لیے بولا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غار حرا نبوت کا کوئی مقدس حصہ نہیں۔ کسی نبی کا ظہور اگر موجودہ زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھاکہ وہ موجودہ زمانے کی انٹرنیشنل لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرتا،اور انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت کرتا۔

قتل وقتال کا معاملہ

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قتل و قتال کے معاملے کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا۔ مثلاً اس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح متحد ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کو دیکھیے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد بالسیف مطلق معنوں میں کوئی بہت بڑی بات ہے۔ یعنی جس طرح تم نماز پڑھتے ہو، اسی طرح مفروضہ طور پر کچھ لوگوں کو دشمن قرار دے کر ان سے ہمیشہ لڑتے رہو۔ مگر باعتبار حقیقت ایسا نہیں ہے۔ جہاد بالسیف ایک موقت(وقتی) حکم ہے، وہ ایمان اور نماز، وغیرہ کی طرح ہردن اور ہر زمانے میں جاری رہنے والا مطلق اور ابدی حکم نہیں ہے۔ جیسا کہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے اصحاب کوایک نصیحت کی۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اے لوگو، دشمن سے مقابلہ کی تمنا مت کرو، اور اللہ سے عافیت مانگو (لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ)، لیکن جب مقابلہ ہو تو جم کر مقابلہ کرو، اور یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر2966)۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جہاد بالسیف کوئی مطلق حکم کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب کہ فریق ثانی کے اقدام کی بنا پر اس کی صورت پیش آجائے۔ چناں چہ فقہاء نے بتایا ہے کہ جہاد بالسیف حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ وہ حسن لغیرہ ہے (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، محمد بن ابراہیم التویجری، بیت الأفکار الدولیة، 2009، 5/449-50)۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا مشن اصلاً توحید کا مشن تھا۔ یعنی وہی مشن جو تمام ابنیا ء کا ہمیشہ سے مشن رہا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ آپ کی ایک مزید ذمے داری (additional duty) یہ تھی کہ آپ دنیا سے دورِ جبر (age of despotism)کا خاتمہ کردیں۔ دورِجبر اللہ کے تخلیقی نقشے کے خلاف تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom