قرآن کی دو آیتیں
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے پہلی شرط اللہ کا خوف ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو علم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ تقویٰ اور علم کا تعلق یہ ہے کہ تقویٰ آدمی کو انسان اصلی (man cut-to-size) بناتا ہے۔ یعنی انسان اپنی فکر کے اعتبار سے وہاں پہنچ جاتا ہے، جہاں بطور حقیقت اس کو ہونا چاہیے۔ جب اللہ رب العالمین کی معرفت سے انسان،انسان اصلی بن جائے، اس وقت انسان کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ (realistic approach) پیداہوجاتی ہے۔ جب انسان کٹ ٹو سائز ہو کر اس حد پر پہنچ جائے۔ اس وقت وہ اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایز اٹ از دیکھنے لگے، اور ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)ہی وہ واحد شرط ہے جو آدمی کو حقیقی معنوں میں کلام الٰہی کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔
اس سلسلے میں دوسری اہم آیت یہ ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن کے مطالعے کا معیار (criterion) کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کا مطالعہ آدمی کے لیے ذکر و نصیحت کا ذریعہ بن جائے۔ کوئی بھی دوسری چیز خواہ بظاہر وہ کتنی ہی زیادہ اہم ہو، وہ کلامِ الٰہی کے مطالعے کا معیار نہیں بن سکتی۔
خواہ قرآن کے مطالعے کے لیے صحیح طریقۂ کار کا معاملہ ہو یا قرآن کے مطالعے سے نتیجہ اخذ کرنے کا معاملہ ہو، دونوں معاملوں میں ایک ہی درست معیار ہے، وہ معیار جو قرآن سے ثابت ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ سے کوئی معیار قائم نہ کرے۔ بلکہ وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرکے اس سے درست معیار کو اخذ کرے۔