فطرت کا ایک قانون
قرآن میں اجتماعی زندگی کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ إِلَى اللَّہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (5:105)۔ یعنی اے ایمان والو، تمھارے او پر صرف اپنی ذمے داری ہے۔ کسی کی گمراہی تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی اگر تم ہدایت پر ہو۔ تم سب کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو بتادے گا جو کچھ تم کر رہے تھے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہی بات ایک اور آیت میں اس انداز میں آئی ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا إِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ (3:120)۔ یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہیں پہنچا ئے گی۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اللہ اس پر حاوی ہے۔ دونوں آیتوں کے مطالعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں آدمی خود اپنے انجام کو بھگتتا ہے۔ آدمی کا رویہ اگر صابرانہ رویہ ہو تو وہ لوگوں کی سازشوں سے خود فطرت کے قانون کے مطابق اس سے محفوظ رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کا رویہ بے صبری کا رویہ ہو تو وہ لوگوں کی سازش کا شکار ہوتا رہے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خود اپنا محاسبہ کرے۔ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے، وہ خود اپنی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔ ایسا آدمی یقینی طور پر دوسروں کے شر سے محفوظ رہے گا۔
دوسروں کے شر سےمحفوظ رہنے کا ایک اٹل اصول ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی طرف سے اشتعال انگیز کارروائی کرکے فریق ثانی کو جوابی کارروائی (retaliation) کا موقع نہ دیں۔ اس معاملے میں یہی سب سے بڑا اصول ہے۔ اس اصول کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر آپ دوسروں کے شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھیے، دوسروں کو کبھی جوابی کارروائی کا موقع نہ دیجیے۔