قرآن کا مطالعہ
کئی بار ا یسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی جو درس قرآن کے کسی حلقے میں برابر شرکت کرتے ہیں۔ میں نے ان سے ایک سوال کیا۔ وہ یہ کہ آپ جو درس قرآن سنتے ہیں، اس سے آپ کو ٹیک اوے (takeaway)کیا ملا۔ میرے تجربے کے مطابق، یہ لوگ متعین انداز میں بتا نہ سکے کہ ان حلقوں میں شرکت سے ان کو ٹیک اوے کیا ملا یا کیا ملتا ہے۔ ٹیک اوے کا مطلب ہےکسی کلام سے اخذ کردہ بات:
A conclusion to be made based on presented facts or information
آپ کوئی کتاب پڑھیں یا کوئی تقریر سنیں، اور اس سے آپ کو کوئی متعین بات نہ ملے تو آپ کا ذہن ایڈریس نہ ہوگا۔ آپ پڑھ کر یا سن کر بھی اس سے کوئی کار آمد بات اخذ نہ کرسکیں گے۔ جب ایسا ہوگا تو پڑھی ہوئی بات یا سنی ہوئی بات آپ کی شخصیت کا جزء نہیں بنے گی۔ پڑھ کر یا سن کربھی آپ ویسے ہی رہیں گے، جیسا کہ سننے یا پڑھنے سے پہلے تھے۔ مفید کلام وہ ہے، جس سے قاری یا سامع کو کوئی متعین پیغام ملے۔ جو اس کے ذہن کو متعین انداز میں ایڈریس کرے، جس کے بعد آدمی اس قابل ہوجائے کہ وہ تقابلی انداز میں بات کو سمجھے۔ وہ اپنی شخصیت یا اپنے موقف کا تقابلی انداز میں مطالعہ کرے۔ جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا کرے، وہی کلام مفید کلام ہے، اور جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا نہ کرے، وہ بظاہر الفاظ کا ایک مجموعہ ہوسکتا ہے، لیکن وہ معانی کا خزانہ نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر آپ نے یہ آیت پڑھی یا سنی: اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ (2:255)۔ یہ آیت پڑھ کر آپ نے الحی القیوم پر غور کیا، اور یہ سوچا کہ جس طرح میں ایک زندہ ہستی ہوں، اس سے بڑھ کر اللہ رب العالمین الحی القیوم ہے، وہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ آپ کے اندر اگر یہ شعور پیدا ہوا اور آپ نے اللہ رب العالمین کو ایک زندہ وجود کے طور پر دریافت کیا تو آپ کو ٹیک اوے ملا، اور اگر ایسا نہیں ہوا تو آپ کو ٹیک اوے نہیں ملا۔
اسی طرح اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، اللہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اس پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو۔ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو(المائدۃ،5:8)۔
آپ نے اس آیت کو پڑھا۔ پھر آپ نے اس آیت کو اپنے آپ پر منطبق کیا۔ تطبیقی مطالعہ (applied study) کرکے آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا میں اپنے معاملے میں اس آیت پر عمل کررہا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت کیا کہ اس طرح کے معاملے میں میرا رویہ اس آیت کے مطابق نہیں ہے۔اس کے بعد آپ نے فوراً اپنا بے لاگ محاسبہ کیا۔ آپ نے اپنی سوچ کو بدل کر اپنے آپ کو عادلانہ روش پر قائم کیا تو قرآن کا یہی مطالعہ صحیح قرآنی مطالعہ ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ایسا کریں کہ قرآن کا مطالعہ فنی انداز میں کریں ۔ قرآن کے لغوی اور نحوی مسائل کو حل کریں تو آپ کو قرآن سے حلّ الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
قرآن کی تحریک پچھلے تقریباً سو سال سے بڑے پیمانے پر چل رہی ہے۔ لوگ قرآن کے نام پر کتابیں چھاپ رہے ہیں، اور تقریریں کر رہے ہیں۔ لیکن اگر نتیجے کے اعتبار سے جائز ہ لیا جائے تو ایسے افراد کو پانا مشکل ہوگا جن کا ذہن مطلوب انداز میں بنا ہو۔ مثلاً قومی مسائل میں جو متعصبانہ رائے عام مسلمانوں کی ہے، وہی قرآن کے ان قاریوں کی بھی ہے۔ قرآن کا نام لینے والے تو بہت سے لوگ ملیں گے، لیکن ایسا کوئی شخص مشکل سے ملے گا، جس کے اندر صحیح معنوں میں قرآن کا ذہن بنا ہو۔
اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن کے نام پر ہونے والی یہ تمام کوششیں غیر تطبیقی انداز (unapplied way) میں کی جارہی ہیں۔ اس بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ سننے یا پڑھنے والوں کا ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن کا سننا یا پڑھنا، بس قرآن کا قصیدہ بن کر رہ جانا ہے۔ ایسے لوگ تو ملتے ہیں،جو قرآن پر فخر کریں، لیکن ایسے لوگ نہیں ملتے، جن کے اندر قرآن کو سن کر محاسبہ (introspection) کی سوچ جاگے۔