تزکیہ اور دعوت
مولانا محمود حسن دیوبندی کا واقعہ ہے۔ وہ 1920 ءمیں مالٹا کی جلاوطنی سے واپس آئے۔ اس کے بعد دیوبند میں ان کی ایک مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں انھوں نے درسِ قرآن کی بات کہی۔ان کے شاگرد رشید مفتی محمد شفیع صاحب اُس مجلس کی روداد اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعدایک رات بعدِ عشاء (حضرت) دارالعلوم (دیوبند) میں تشریف فرما تھے۔ علما کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ’’ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں ...میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک، ان کا قرآن کو چھوڑدینا، اوردوسرا، آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے۔(جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد، صفحہ 346)۔
شیخ الہند کے ان الفاظ پر اب تقریباً سو سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں شیخ الہند کی مذکورہ رہنمائی کو بے شمار لوگوں نے اختیار کیا، اور سارے ملک میں قرآن پر مبنی تحریکیں چلائی گئیں۔ لیکن اگر بے لاگ انداز میں نتیجے کا جائزہ لیا جائے تو نتیجے کے اعتبار سے یہ تحریکیں صفر (zero) ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ نظریے کے اعتبار سے غالباً کسی بھی قابلِ ذکر واقعے کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب خود تشخیص کی غلطی ہے۔ یعنی قرآن کی اشاعت کے جس پیٹرن کو اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ قدیم کتب میں تفسیرِ قرآن کے لیے جو انداز اختیار کیا گیا ہے،ا س کو ایز اٹ از (as it is) عوام میں پھیلانا۔ قدیم کتابوں میں تفسیر قرآن کا جو پیٹرن پایا جاتا ہے، وہ درس و تدریس کے لیے موزوں ہے، لیکن اصلاح و تربیت کے لیے یہ پیٹرن موزوں نہیں۔
اصلاح و تربیت کے لیے جو پیٹرن مفید ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے تطبیقی انداز (applied pattern)۔ اب ہم ایک نئے زمانے میں جی رہے ہیں، نئے زمانے کے لحاظ سے مفید پیٹرن صرف وہ ہے، جو نئے حالات میں پیدا ہونے والے اذہان کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ بعض حضرات، جنہوں نے قدیم پیٹرن کو بدلا، وہ صرف یہ تھا کہ انھوں نے فنی انداز کے بجائے سیاسی انداز (political pattern) اختیار کرلیا۔ اس قسم کی تبدیلی منفی نتائج تو پیدا کرسکتی تھی، لیکن مثبت نتائج کبھی بھی سیاسی پیٹرن سے حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
مثلاً جن لوگوں نے تفسیرِ قرآن کا سیاسی پیٹرن اختیار کیا، انھوں نے یہ کیا کہ جہاد و قتال سے متعلق قرآن کی آیتوں کو برٹش ایمپائر اور مغربی تہذیب پر منطبق کرکے پر زور تحریکیں چلائیں، اور سیاسی جدو جہد کو قرآ ن کا مطلوب کام قرار دیا۔ یہ اسلوب بلاشبہ آخری حد تک غیر متعلق (irrelevant) تھا۔ اس لیے اس کا مثبت نتیجہ نہ نکلنے والا تھا، اور نہ نکلا۔اس کے برعکس، اگر یہ حضرات دعوت کا اسلوب اختیار کرتے تو یقیناً ان کی کوششوں کے مثبت نتائج بر آمد ہوتے۔
مسلم رہنماؤ ں نے قرآن کے درس کا دعوتی انداز اختیار نہیں کیا۔ البتہ میرے علم کے مطابق ایک برطانی مستشرق پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے 388صفحات پر مشتمل ایک جامع کتاب تیار کی، جو دی پریچنگ آف اسلام (The Preaching of Islam) کے نام سے 1896 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مقصد یہ تھا کہ اس زمانے کے مسلمانوں کو راغب کیا جائے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن دعوتی اسلوب کو اختیار کریں۔مگر عجیب بات ہے کہ اس درست مشورے کو کسی قابل ذکر آدمی نے اختیار نہیں کیا، بلکہ ا س کو برطانی سازش کا حصہ سمجھ کر ردکردیا۔
قرآن کی روشنی میں اسلام کا مقصد اصلاً صرف یہ ہے— اپنے لیے تزکیہ اور دوسروں کے لیے دعوت الی اللہ۔