سلیقہ ٔ حیات

مسلم رہنماؤں کی شاید سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے امت کو حرام و حلال کا مسئلہ تو بتایا، لیکن یہ بتانے میں ناکام ہوگئے کہ جینے کا سلیقہ کیا ہے۔ جس طریقہ کو سیکولرزم کہہ کر مسلمان اس سے نفرت کرتے ہیں، وہ کوئی حرام و حلال کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کو جینے کا پرامن سلیقہ بتایا جائے۔ زندگی میں یہی کافی نہیں ہے کہ آپ حرام و حلال کو جانیں، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ جینے کا سلیقہ جانیں۔

مثلاً ایک شخص آپ کے رسول کے خلاف کوئی ایسی بات کہے، جو آپ کو پسند نہ ہو تو آپ یہ مت کہیے کہ وہ شاتم ہے، بلکہ یہ کہیے کہ اس کی رائے میری رائے سے مختلف ہے۔ کوئی شخص آپ کی رائے سے الگ اپنی رائے بنائے تو آپ اس کے قتل کا فتویٰ مت دیجیے، بلکہ اس کو صرف اختلاف رائے کے درجے میں رکھیے، اور اس کو پرامن انداز میں سمجھانے کی کوشش کیجیے۔

یہ عجیب بات ہے کہ یہ غلطی ان لوگوں نے کی جو امت میں ٹرینڈ سیٹر (trendsetter)کی حیثیت رکھتے تھے۔ مثلاً ایک بڑے عالم نے ایک کتاب لکھی۔ اس کا ٹائٹل یہ مقرر کیا: الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ اس کتاب نے امت کو یہ اصول دیا کہ جہاں تم دیکھو کہ کوئی شخص تمھارے رسول کے خلاف شتم کر رہا ہے تو اس کے خلاف تلوار لے کر کھڑے ہوجاؤ۔ یہ اصول بلاشبہ اسلام کے دعوتی تصور کے خلاف ہے۔

دعوت وتبلیغ کے اصول کا یہ تقاضا ہےکہ اگر کوئی شخص آپ کو ایسا ملے جو آپ کے پیغمبر کے خلاف کلام کررہا ہو تو آپ اس سے مل کر اس کے نقطۂ نظر کو معلوم کریں۔ اس کو دلیل سے اپنی بات سمجھائیں۔ اس کی سوچ کو درست کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ اس کی گردن کو اس کے جسم سے جدا کردیں۔ پر امن طریقہ (peaceful method) درست طریقۂ حیات ہے۔ اس کے برعکس، زور و جبر اور نفرت کا طریقہ سلیقہ مندی کے خلاف ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom