فضیلت کا تصور
کسی عمل کے افضل عمل ہونے کا تصور قرآن میں موجود نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق، کوئی عمل اپنی داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے بڑا عمل ہوسکتا ہے، محض فارم کے اعتبار سے کوئی عمل بڑا عمل نہیں۔ عمل پر فضیلت کا ذکر حدیث میں آیا ہے، لیکن وہ زیادہ مستند نہیں۔ خود محدثین کے اعتراف کے مطابق فضلیت کی روایتوں کو زیادہ قابل اعتماد نہیں سمجھا جاسکتا۔
جیسا کہ معلوم ہے محدثین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی روایت کو لینے کے بارے میں بہت زیادہ سخت ہیں۔ مثلاً امام بخاری نے 600,000 حدیثیں جمع کی، لیکن اپنی مشہور کتاب صحیح البخاری میں انھوں نے ان میں سے صرف کچھ ہزار احادیث کو لیا،جن کی تعداد ابن الصلاح اور النوی کے مطابق 7275ہے۔ مگر فضیلت کی روایتوں کے بارے میں محدثین نے ایسا رویہ اختیار نہیں کیا۔
تیسری صدی ہجری کے مشہور محدث عبد الرحمن ابن مہدی (وفات 198:ھ)نے محدثین کے مسلک کو بیان کرتے ہوئے کہا:إِذَا رَوِینَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَلَالِ، وَالْحَرَامِ، وَالْأَحْکَامِ، شَدَّدْنَا فِی الْأَسَانِیدِ، وَانْتَقَدْنَا الرِّجَالَ، وَإِذَا رَوِینَا فِی فَضَائِلِ الْأَعْمَالِ وَالثَّوَابِ، وَالْعِقَابِ، وَالْمُبَاحَاتِ، وَالدَّعَوَاتِ تَسَاہَلْنَا فِی الْأَسَانِیدِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 1801)۔ یعنی جب ہم نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے حلال و حرام اور احکام کی روایتیں لیں، تو ہم نےاسانید کے معاملے میں سختی سے کام لیا، رجال پر نقد کیا، اور جب ہم نے فضائل اعمال، ثواب و عقاب، مباحات و دعا کی روایتیں بیان کی تو اس کی اسناد میں تساہل سے کام لیا۔
دو قسم کی حدیثوں کے معاملے میں محدثین کا یہ مسلک علمی اعتبار سے ناقابل تسلیم ہے۔ اس لیے کہ جب کسی قول کو حدیث رسول بتایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ قول امت کے لیے یکساں طور پر رسول اللہ کا قول بن جاتا ہے۔ خواہ وہ ایک حکم کے بارے میں ہو یا دوسرے حکم کے بارے میں۔ ایسی حالت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ حدیث کے معاملے میں اس قسم کی تفریق کو درست قرار دے۔ ایک قسم کی حدیث کے معاملے میں شدت، اور دوسری قسم کی حدیث کے معاملے میں تساہل۔ جہاں تک میں جانتا ہوں اس تفریق کو درست قرار دینے کے لیے قرآن یا حدیث میں کوئی حوالہ موجود نہیں۔ اصولی طور پر یہ بات بلااختلاف درست ہے کہ رسول اللہ کی تمام حدیثوں کو یکساں معیار پر جانچنا چاہیے۔
حدیث کے معاملے میں اس قسم کا تساہل اختیارکیا گیا تاکہ اس سے لوگوں کو عمل کے لیے ترغیب ملےگی۔ مگر یہ قیاس درست نہیں۔ اس لیے کہ انسانی نفسیات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سے ان کے اندر الٹا مزاج پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر سہل پسندی (easygoing attitude) کا مزاج پیدا ہوگیا۔ یعنی وہ چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے انعام کی امید قائم کرنے لگے، جس کو قرآن میں امانی کہا گیا ہے۔
مزید غور کیجیے، فضائل کی روایتوں میں تساہل کا معاملہ عملاً کس قسم کی روایتوں کے بارے میں آتا ہے۔ وہ اعمال کی داخلی روح کے بارے میں نہیں آتا، بلکہ اعمال کے ظواہر کے بارے میں آتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی کتابوں میں جو ابواب ہوتے ہیں، وہ محبتِ خدا کی فضیلت یا رسول کی فضیلت یا دعوت کے لیے باخع (الشعراء، 26:3)بن جانے کی فضیلت کے بارے میں نہیں ہیں۔
اس کے برعکس، فضائل اعمال کی روایتیں معمولی قسم کے اعمال کے بارے میں آتی ہیں۔ مثلاً فلاں وقت نماز پڑھنے کی فضیلت، فلاں دن روزے رکھنے کی فضلیت، فلاں کلمہ اتنی بار پڑھ لینے سے جنت مل جائے گی،وغیرہ۔
اگر کسی شخص کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو اس کے بعد وہ ہر لمحہ اس کے درد کو محسوس کرتا رہے گا۔ اِسی طرح انسان کو ہر لمحہ خدا کی کسی نہ کسی رحمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ صبح وشام کا کوئی لمحہ بھی اِن تجربوں سے خالی نہیں ہوتا۔ جس آدمی کو خدا کی شعوری معرفت حاصل ہوجائے، وہ ہر لمحہ اِن ربانی تجربات کو محسوس کرتا رہے گا۔ یہ تجربہ ہر لمحہ خدا کی یاد میں ڈھلنے لگے گا۔خدا کی اسی دوامی یاد کا نام ذکر کثیر ہے۔