چپ کا راز
ایک بار ایک سفر کے دوران میں کسی ایر پورٹ پر تھا۔ وہاں ایک جاپانی مسافر سے ملاقات ہوئی، وہ ایک نوجوان تھا، اور کسی یونیورسٹی میں ریسرچ کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران اس نے کہا کہ میرے ریسرچ کا موضوع خاموشی (silence) ہے۔ پھر اس نے کہا کہ کیا آپ اسلام سے خاموشی کے موضوع پر کوئی ریفرینس بتا سکتے ہیں۔میں نے کہا، ہاں۔ میں نے کہا کہ اس موضوع پر میں پیغمبر اسلام کا ایک قول آپ کو سناتا ہوں، پھر میں نے یہ حدیث اس کو سنائی: مَنْ صَمَتَ نَجَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2501)۔ یعنی جس نے خاموشی اختیار کی، وہ نجات پاگیا۔جاپانی نوجوان اس بات کو سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اس حدیث کو فوراً اپنی ڈائری میں نوٹ کیا، اور کہا کہ اس حوالے کو میں اپنے تھیسِس میں شامل کروں گا۔
چپ رہنا کوئی سادہ بات نہیں۔ چپ رہنا دو آپشن میں سے ایک آپشن کو چھوڑنا،ا ور دوسرے آپشن کو اختیار کرنا ہے۔ یعنی بولنے کا آپشن نہ لینا، اورخاموشی کا طریقہ اختیار کرنا۔جب کوئی آدمی ایسا کرتا ہے تو وہ در اصل بولنے کے بجائےسوچنے کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی بات سن کر ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ اپنی عقل میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ رد عمل کے طریقے کو چھوڑ کر مثبت عمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جب آپ نہیں بولتے ہیں، تو آپ سوچتے ہیں، اور جب آپ سوچتے ہیں تو آپ اپنے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں اضافہ کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بولنا آسان ہے، مگر نہ بولنا ایک مشکل کام ہے۔ بولنے کے لیے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ جو بھی آپ کے حافظے میں الفاظ ہیں، ان کو دہرانا شروع کردیجیے، اور پھر نطق وجود میں آجائے گا۔ لیکن جب آپ نہ بولیں، تو آپ کا ذہن فوراً سوچنا شروع کردیتا ہے، وہ مختلف باتوں کا موازنہ کرتا ہے۔ وہ حال کے ساتھ مستقبل کو اپنی سوچ میں شامل کرتا ہے۔ وہ اقدام کے ساتھ انجام پر غور کرتا ہے۔