ہر انسان کا معاملہ

ہر انسان پر وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ وہ موجودہ دنیا میں نہ رہے۔ ہر آدمی پر وہ وقت آئے گا، جب کہ وہ اپنے آپ کو ایسے حال میں پائے، جہاں ایک طرف اس کی ماضی کی یادیں ہوں، جو اس کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئیں، اور دوسری طرف آگے کی وہ دنیا ہو، جو اس کے سامنے انفولڈ (unfold) ہورہی ہو۔ آج انسان ماضی اور حال کے درمیان جی رہا ہے۔ پھر وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ ماضی اور حال دونوں اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ وہ ایک بھولی ہوئی کہانی بن کر رہ جائے گا۔ اردو کے ایک شاعر تھے میر تقی میر(1723-1810)،انھوں نے ایک شعر کہا تھا:

صبحِ پیری شام ہونے آئی میر    تو نہ چیتایاں بہت دن کم رہا

یہ شعر انھوں نے اپنے بارے میں کہا تھا، جب کہ وہ عمر کا بڑا حصہ گزار کر اپنے آخری دور میں پہنچ چکے تھے۔ تمثیل کی زبان میں ہر آدمی کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پیدا ہوکر وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچا، اور پھر اس پر موت کا فیصلہ آیا، اور وہ اپنی زندگی کے دورِ اول کو چھوڑ کر اپنی زندگی کے دوسرے دور میں پہنچ گیا۔

زندگی کا یہ سفر کیا ہے۔ انسان کہاں سے آتا ہے، اور وہ کہاں چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک آغاز اور ایک انجام کے درمیان ہے۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ آغاز کیا ہے، اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ہر انسان کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ زندگی کے اِس سفر کے بارے میں سوچے۔ وہ زندگی کی کہانی پڑھ کر اس کی حقیقت کو دریافت کرے۔ وہ جانے کہ زندگی کے سفر میں آج وہ کہاں کھڑا ہوا ہے، اور کل اپنے آپ کو وہ کس مقام پر پائے گا۔

اس دریافت کے بعد ہر آدمی کے لیے دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی نتیجہ خیز پلاننگ کرے۔ وہ اپنے آج کو اپنے کل کے لیے استعمال کرے۔ آدمی اپنی زندگی کا ایسا منصوبہ بنائے کہ اس کا حال اس کے مستقبل کے لیے مفید ثابت ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom