خدا کی پہچان

حضرت موسی بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر تھے۔ ان کو طور پہاڑپر خدا سے کلام کا تجربہ ہوا۔ قرآن کے مطابق، اس وقت انھوں نے کہا: رَبِّ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْکَ(7:143)۔ یعنی اے میرے رب مجھے اپنے آپ کو دکھا کہ میں تجھ کو دیکھوں:

My Lord, show Yourself to me so that I may look at You.

تاریخ کا تجربہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا انسان شعوری یا غیر شعوری طو رپر ایک طلب لے کر پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنے خالق (creator) کو دیکھے۔ حتٰی کہ پیغمبر بھی اس معاملے میں مستثنیٰ نہیں۔ مگر انسان کی آنکھ اپنے جیسی مخلوق کو دیکھ سکتی ہے، لیکن خالق کو براہ راست دیکھنا،اس کے لیے ممکن نہیں۔ خالق کو موجودہ دنیا میں براہ راست دیکھنے کے لیے انسان کو دوسرا خدا بننا پڑے گا، اور دوسرا خدا بننا کسی انسان کے لیےممکن نہیں۔ حتی کہ پیغمبر کے لیے بھی نہیں۔

اس سلسلے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا: یَا أُمَّتَاہْ ہَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَبَّہُ؟ فَقَالَتْ:لَقَدْ قَفَّ شَعَرِی مِمَّا قُلْتَ، أَیْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ، مَنْ حَدَّثَکَہُنَّ فَقَدْ کَذَبَ، مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّہُ فَقَدْ کَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ:لاَ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیرُ [6:103]، وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُکَلِّمَہُ اللَّہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ [42:51](صحیح البخاری، حدیث نمبر 4855)۔ یعنی مسروق (تابعی)کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ سے کہا کہ اے ماں، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔عائشہ نےکہا: تم نے جو کہا اس سے میرے بال کھڑے ہوگئے۔ تین باتوں کے بارے میں تم کہاں ہو، جس نے تم سے یہ تین باتیں کہیں، اس نے جھوٹ کہا۔ (ان میں سے ایک یہ کہ ) جو تم سے یہ کہے کہ رسول اللہ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے جھوٹ کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی: نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرتیں، مگر وہ نگاہوں کا ادراک کر تا ہے۔ وہ بڑا باریک بیں اور بڑا باخبر ہے۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی: اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے خالق کو براہ راست طو رپر دیکھ نہیں سکتا۔ مگر انسان یقینی طور پر دیکھنے جیسے تجربہ کے ذریعہ خالق کے وجود پر تیقن حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے لیے خالق نے ایک ماڈل پیدا کیا ہے۔ یہ ماڈل تیقن بغیر رویت (conviction without observation) کا ماڈل ہے۔ یہ ماڈل وہی ہے، جس کو ہم ماں (mother) کہتے ہیں۔ ہر انسان کامل تیقن کے ساتھ اپنی ماں کو ماں سمجھتا ہے، حالاں کہ کسی نے بھی یہ نہیں دیکھا کہ وہ اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بچہ پیدا ہونے کے وقت بظاہر آنکھ لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن پیدا ئش کے وقت وہ اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔

ماں کا تجربہ ہر انسان کے لیے ایک معلوم ماڈل ہے۔ کوئی بھی انسان اس ماڈل سے بے خبر نہیں۔ اس ماڈل کی صورت میں ہر پیدا ہونے والاانسان، عورت ہو یا مرد، یہ جانتا ہے کہ فلاں عورت میری ماں ہے۔ یہ یقین ایک ایسے ماڈل کے ذریعہ ہوتا ہے، جو ہرمشاہدے سے بلند ہے۔ یہ ماڈل ہے یقین بغیر رویت (conviction without observation) کا ماڈل۔ یہ ماڈل اتنا زیادہ یقینی ہے کہ کوئی شخص اپنی فطرت پر قائم رہتے ہوئے، اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسی لیے حضرت عائشہ نے وہ بات کہی، جو مذکورہ روایت کی صورت میں حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ماڈل اتنا زیادہ مبنی بر حق ماڈل ہے کہ ایک سچا مومن اس کو سنے تو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس ماڈل کے باوجود جو عورت یا مرد یہ مطالبہ کرے کہ خدا اگر ہے تو اس کو مجھے براہ راست دکھاؤ۔ یہ مطالبہ اتنا زیادہ بے بنیاد اوراتنا زیادہ غیر منطقی (illogical) ہے کہ اس کو سن کر ایک سچے انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوجائے، وہ کھڑا ہے تو گر پڑے، وہ بول رہا ہے تو خاموش ہوجائے، اس کی زبان بولنے سے عاجز ہوجائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom