بڑھاپے کا دور
زندگی میں آدمی کے لیے بہت سے مسئلے آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، نقصان، وغیرہ۔ لیکن بڑھاپا ایک بالکل مختلف قسم کا مسئلہ ہے۔ بڑھاپا گویا خاتمۂ حیات کا نام ہے۔ بڑھاپا ہمیشہ پائنٹ آف نو ریٹرن (point of no return) پر آتا ہے۔ بڑھاپا ہر اعتبار سے انسان کے لیے صرف ایک مسئلہ ہے۔
لیکن بڑھاپے کا ایک مثبت پہلو ہے، جو صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتا ہے، اور وہ عجز (helplessness)کی دریافت ہے۔ عجز کی دریافت دوسرے اسباب سے بھی جزئی طور پر ہوتی رہتی ہے، لیکن کامل معنوں میں عجز کی دریافت صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ بڑھاپاکسی آدمی کو اس وقت آتا ہے، جب کہ اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔انسان کا جسم فطری طور پرایک بہترین ساخت پر قائم ہے۔ اس جسم کو تقریباً 80 آرگن (organs)نہایت اعلیٰ مینجمنٹ کے ساتھ چلارہے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ آرگن جزئی یا کلی طور پر اپنا فنکشن بند کردیتے ہیں۔اس فنکشن کو دوبارہ جاری نہیں کیاجا سکتا۔ کسی آرگن کے فیل ہونے کا آخری نتیجہ موت ہوتا ہے۔
عجز بلاشبہ حقیقت اعلیٰ کی دریافت ہے۔ حقیقت اعلیٰ کی دریافت کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت ہوتی ہے۔ ناقص شخصیت کا مکمل ہونا، صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے۔ بڑھاپے کا دور سب سے بڑی دریافت کا دور ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ بوڑھا انسان صرف ایک بات کو جان پاتاہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کو نظر انداز (neglect)کیا جارہا ہے۔ بوڑھا انسان مسلسل طور پر صرف شکایت (complaint) میں جیتا ہے۔ کم از کم میں نے کسی بوڑھے انسان کو نہیں پایا، جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شکایت کی نفسیات سے بچا ہوا ہو۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اکثر حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ مادی اعتبار سے انسان کا جسم اگرچہ بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن اس کا ذہن بدستور کام کرتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کا ذہن پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے ذہن میں تجربات کا اضافہ ہوجا تاہے۔ انسا ن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں معاملات پر رائے قائم کرسکے۔ پہلے اگر وہ صرف جاننے والا تھا، اب وہ ایک دانش مند انسان بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ بصیرت افروز انداز میں معاملات پر اپنی رائے دے سکے۔ وہ لوگوں کو زیادہ صائب (rational) انداز میں درست مشورہ دے سکے۔ بوڑھا انسان ایک پختہ (mature) انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ نتیجہ خیز رہنمائی دے سکے۔
انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو ڈسکور کرے۔ یہ دریافت ہر لمحے ہوسکتی ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑھاپے سے پہلے بُھلاوَہ کلچر میں جیتا ہے۔ وہ بھلاوہ کلچر سے صرف اُس وقت باہر نکلتا ہے، جب کہ وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے۔ جب اس کے آرگن کام کرنا بند کرنے لگیں۔ یہی اصلی عجز کی دریافت کا وقت ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان شعوری طور پر قادرِ مطلق خدا کو دریافت کرے، لیکن انسان اپنی بے خبری کی بنا پر یہ کرتاہے کہ اپنی زندگی کے پہلے دور میں وہ بے خبری (unawareness) میں جیتا ہے، اور دوسرے دور میں شکایت کی نفسیات میں۔ اس طرح انسان اپنی طاقت کے دور کو بھی کھودیتا ہے، اور اپنے ضعف کے دور کو بھی۔
بڑھاپے کی عمر پختگی (maturity) کی عمر ہوتی ہے۔ اس زمانے میں انسان کا تجربہ (experience) بڑھ جاتاہے۔ انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ معلومات کی روشنی میں غور وفکر کرے۔ یہ چیزیں انسان کی عقل میں اضافہ کرتی ہیں۔ انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ دانش مندانہ رائے دے سکے۔ عمر رسیدہ آدمی سماج میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دینے والا (giver) بن کر رہ سکے۔ بوڑھا آدمی اگر صرف ایک کام کرے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھے، جس میں اس نے اپنی زندگی کے تجربات بیان کیے ہوں، تو ہر آدمی اپنی سوسائٹی کا ایک عظیم دینے والا (great giver) بن کر دنیا سے رخصت ہوگا۔