دعوت کا اصول

دعوت کے ابتدائی دور میں سورہ المدثر نازل ہوئی۔ اس میں رسول اللہ کو حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَالرُّجْزَ فَاہْجُر(74:5)۔ یعنی اور گندگی کو چھوڑ دو۔رُجز کا لفظی مطلب گندگی ہے۔ یہاں رجز اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ اس معنی میں ہے کہ ایسے فعل سے اعراض کرو، جو باعتبارِ نتیجہ رجز تک پہنچنے والا ہو۔ امام رازی نے اس آیت کی تفسیران الفاظ میں کی ہے:کُلَّ مَا یُؤَدِّی إِلَى الرُّجْزِ فَاہْجُرْہُ (تفسیر الرازی، 30/699)۔ یعنی ہر وہ چیز جو رجز تک پہنچانے والی ہو، اس کو چھوڑ دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں رجز کا لفظ باعتبار نتیجہ ( in terms of result) ہے۔ یعنی جو چیز بظاہر غلط نہ ہو، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے وہ غلط انجام تک پہنچانے والی ہو، ا س کو چھوڑ دو۔

مثلاً جب پیغمبر اسلام نے توحید کا مشن مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت کعبہ میں تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ یہ پیغمبرِ توحید کے لیے بظاہر ایک ناقابل قبول بات تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام اگر ان بتوں کے خلاف کوئی سخت طریقہ اختیار کرتے تو یقیناً اس سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے۔ وہ اس کے ری ایکشن میں تشدد کا طریقہ اختیار کرتے۔ اس طرح مکہ میں امن کا ماحول ختم ہوجاتا، اور دعوت کے بجائے ٹکراؤ کا ماحول شروع ہوجاتا۔ اس کے نتیجے میں ایک رجز وجود میں آتا، یعنی مکہ میں ٹکراؤ کا ماحول قائم ہوجانا۔ اس کے بعد یہ ہوتا کہ بتوں کی زیارت کے نام سے جو مکہ میں پورے عرب سے آمدو رفت ہوا کرتی تھی، بند ہوجاتی۔ اس طرح پیغمبر اسلام کو سارے عرب کے آڈینس (audience)مکہ میں نہیں مل پاتے، اور عملاً پرامن دعوت کا خاتمہ ہوجاتا۔

کسی عمل کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ الٹا نتیجہ والا (counter-productive) ثابت نہ ہو۔ وہ مطلوب نتیجہ تک پہنچے، نہ کہ غیر مطلوب نتیجہ تک۔ وہ پرابلم کو ختم کرے، نہ کہ پرابلم میں اور اضافہ کرے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر اقدام سے پہلے، اس کی بہت سوچی سمجھی منصوبہ بندی کی جائے۔ بغیر سوچے سمجھے اقدام کرنا، اسلام میں جائز نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom