کنڈیشننگ کا مسئلہ

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا، فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اس حدیث رسول میں زندگی کی ایک حقیقت کو تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث ہر انسان کے لیے ہے، وہ صرف یہودی یا نصرانی یا مجوسی کے لیے نہیں ہے۔

علم نفسیات کے مطابق، ہرانسان کنڈیشننگ کا کیس ہوتا ہے۔ پیدا ہونے کے اعتبار سے وہ فطرت صحیح پر پیدا ہوتا ہے، لیکن پیدا ہوتے ہی وہ اپنے ماحول سے متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس اثرپذیری (conditioning) کا نتیجہ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں اگر وہ مسٹر نیچر (Mr. Nature) تھا تو جلد ہی بعد وہ مسٹر کنڈیشنڈ (Mr. Conditioned) کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ ماحول سے متاثر ہو کر ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے۔

اس نفسیاتی حقیقت کا تقاضا ہے کہ ہر آدمی سب سے پہلے اپنے تاثر پذیری کو ختم کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کی حالت سے نکال کر مسٹر ڈی کنڈیشنڈ (Mr. Deconditioned) بنائے۔ یہ عمل پہلے اس کے ماں باپ کو کرنا ہے، اور اس کے بعد خود ہر آدمی کا یہ کام ہے کہ وہ اس عمل کو اس کے تکمیلی مرحلے تک پہنچائے۔

کوئی انسان جب اپنی ماں کے پیٹ سے نکل کر باہر کی دنیا میں آتا ہے، تو وہ اپنی فطری حالت پر ہوتا ہے۔ پورے معنوں میں اس وقت وہ نیچر کا پروڈکٹ ہوتا ہے۔ لیکن پیدائش کے بعد اس کو جو دنیا ملتی ہے، وہ ایک بالکل مختلف دنیا ہوتی ہے۔ دنیا میں اس کوایک انسانی کلچر کے درمیان رہنا پڑتا ہے۔ وہ ہر لمحہ اس خارجی دنیا سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے اگرچہ بظاہر فطری انسان ہوتا ہے، لیکن عادات اور اپنی سوچ کے اعتبار سے وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے، جو پورے معنوں میں ماحول کی پیداوار (product) ہوتا ہے۔

انسان کا پہلا دور حیات وہ ہے، جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں بن کر تیار ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا دورِ حیات وہ ہے، جو ماں کے پیٹ کے باہر انسانوں کی تیار کی ہوئی دنیا میں بنتا ہے۔ اس دوسرے دورحیات میں ہر انسان کی پہلی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو شعوری طور پر دریافت کرے۔ اس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کی حالت سے نکال کر مسٹر ڈی کنڈیشنڈ کی حالت میں پہنچائے۔

مسٹر ڈی کنڈیشنڈ بننا ایک سخت قسم کا تربیتی عمل ہے۔ اس تربیتی عمل کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے آدمی کو اپنا محاسب آپ بننا پڑتا ہے۔ اس عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اندر اینٹی سیلف تھنکنگ (anti-self thinking) کی صلاحیت پیدا کرے، وہ اپنی ہیمرنگ (hammering)آپ کرنے کا فن جانے۔ وہ اپنا آئینہ خود اپنے آپ کو بنائے۔

اپنا محاسبہ آپ کے معاملے میں تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کا بے رحم محاسب بن جائے۔ اپنی تربیت کا آغاز خودی اور اسرار خودی کا فلسفہ جاننے سے نہیں ہوتا، بلکہ اپنی کمیوں کو جاننے سے ہوتا ہے۔ اپنی تعریف سننے سے نہیں ہوتا، بلکہ اپنے خلاف شدید تنقید سننے سے ہوتا ہے۔ اس عمل کو میں اپنے الفاظ میں سیلف ہیمرنگ (self hammering) سے تعبیر کروں گا۔ سیلف ہیمرنگ واحد عمل ہے، جو انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے باہر لائے، وہ اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے نکال کر ایک نیا انسان بنائے۔

ایک انسان وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہی مکمل انسان نہیں۔ اس کے بعد انسان کا خود اپنا کام ہے کہ وہ اپنے کو فطرتِ خداوندی پر قائم کرے۔ یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب انسان اپنا محاسب آپ بن جائے۔ اس کام کے بغیر ہر انسان ایک نامکمل انسان ہے، وہ مکمل انسان نہیں۔ یہ گویا اپنی تعمیر آپ کرنے کا کام ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom