درسِ قرآن

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ(6:108)۔ یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو گالی نہ دو ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔

اس آیت میں سبّ نہ کرنے کا یہ حکم اصحاب رسول کو دیا گیا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ اصحاب رسول مشرکین کے الٰہ کے خلاف سب و شتم کی زبان استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کے الٰہ کے خلاف ایسی باتیں کہنےسے بچا جائے،جو ان کے نزدیک شتم کے ہم معنی ہو، جس کو سن کر وہ اشتعال انگیزی کرنے لگیں۔ جب ایسا ہوگا تو اس کےجواب میں تم بھی کچھ کہو گے۔ اس طرح چین ری ایکشن (chain reaction) شروع ہوجائے گا۔ اور پھریہ ہوگا کہ دعوت الی اللہ کا کام ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف ضد، اور نفرت، اور تشدد شروع ہوجائے گا۔ اس طرح دعوت کا پرامن ماحول ختم ہوجائے گا۔ اس لیے اس غیر مطلوب انجام سے بچو تاکہ دعوت کا کام معتدل انداز میں جاری رہے۔

قرآن کے اس طریقۂ درس کو اپلائڈ (applied)درس قرآن کہا جاسکتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا کہ درس قرآن کےحلقوں میں یہ انداز اختیارنہیں کیا جاتا۔ اس لیے درس قرآن کو سن کر عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر غیر مطلوب مزاج پیدا ہوجاتا ہے،یا عدم وضوح کی بنا پر سرے سے کوئی مزاج ہی نہیں بنتا۔ درس قرآن ایک خالص مثبت کام ہے۔اس کو وضوح (clarity)کی زبان میں ہونا چاہیے۔ یہ کام موثر انداز میں صرف اس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ لوگوں کے اندر تیار ذہن موجود ہو۔ ورنہ لوگ درس کو خود اپنے ذہن کے ساتھ سنیں گے، اور ہر درس ان کے لیے خود اپنے کنڈیشنڈ ذہن کی تقویت کا ذریعہ بن جائے گا۔درس قرآن کا مقصد برکت کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کو واضح ہدایت ملے۔ لوگ اپنے ر وزمرہ کے مسائل میں روشنی حاصل کریں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom