ما کان و ما یکون
ایک روایت الفاظ کے فرق کے ساتھ مختلف کتب حدیث میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللہِ الْفَجْرَ، وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّہْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا ہُوَ کَائِنٌ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2892)۔ یعنی رسول اللہ نے ہم کو فجر کی نماز پڑھائی، اور منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا۔ یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا۔ آپ اترے۔ نماز پڑھی پھر منبر پر چڑھے، پھر ہم کو خطبہ دیا، یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا۔ پھر اترے، نماز پڑھی، پھر منبر پر چڑھے، اور ہم کو خطبہ دیا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ (اس میں ) آپ نے ہمیں ماکان و مایکون (جو ہو چکا ہے، اور جو کچھ ہونے والا ہے) کی خبر دی۔
یہ حدیث رسول پوری انسانی تاریخ یا کائنات کی پوری تاریخ کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ دراصل امت مسلمہ کے لیے بطورِ نصیحت ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد امت مسلمہ میں جو حالات پیش آئیں گے، اس میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ یہ حالات دوسری روایتوں میں کتب حدیث کے مختلف ابواب میں متفرق طور پر بیان ہوچکے ہیں۔ غالباً اس روایت کے مطابق ایسا ہوا کہ آپ نے ان واقعات کو ایک دن اجمالی طور پر بیان کردیا۔
پیغمبر اسلام نے امت کے بعد کے حالات کو کیوں اتنا زیادہ بیان کیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ آپ کے بعد کوئی اورنبی آنے والا نہ تھا، جو پیغمبرانہ سطح پر حالات کے بارے میں بر وقت رہنمائی دے۔ اس لیے آپ نے ماکان و ما یکون کو اپنے اصحاب کے واسطے سے پوری امت کو پیشگی طور پر بتا دیا تاکہ امت متنبہ ہوجائے، اور ہر صورتِ حال میں غور وفکر کرکے اپنے لیے رہنمائی دریافت کرلے۔تاہم ان روایتوں میں کچھ باتیں تمثیلی اسلوب میں ہیں، اور کچھ باتیں غیر تمثیلی اسلوب میں۔ ان روایتوں کوسمجھنے کےلیے اس حقیقت کو جاننا بہت زیادہ ضروری ہے۔