باقی ماندہ پر پلاننگ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی نقصان (loss) پیش آتا ہے۔اسی میں سے ایک ہے مال و جائداد کا نقصان (البقرۃ، 2:155)۔عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی صورت حال پیش آنے پر لوگ صرف ایک ہی بات جانتے ہیں، اور وہ ہے کھوئے ہوئے کو دوبارہ حاصل کرنا۔ اس طریقے کو اختیار کرنے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو اپنے عمل کا آغاز ہمیشہ ٹکراؤ (confrontation) سے کرنا پڑتا ہے۔ یعنی قابض سے لڑکر کھوئے ہوئے کو دوبارہ حاصل کرنا، اور پھر اپنی تعمیر کا کام کرنا۔ اس طریقۂ کار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے وقت اور توانائی کا ایک بڑا حصہ منفی سرگرمیوں میں گزرجاتا ہے، اور مثبت تعمیر کے لیے اس کے پاس کم وقت بچتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس مسئلے کا حل اسلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ باقی ماندہ حصہ پر پلاننگ (planning on the basis of the remaining part) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یہ مسئلہ اللہ کی نظر میں اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس کو ایک ابدی اصول کی صورت میں مکہ میں کعبہ کی تاریخ کے ساتھ قائم کردیا گیا۔ قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ لوگ حج کے لیے مکہ آئیں، اور یہاں اپنے نفع کا مشاہدہ کریں۔ قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ بیان آیا ہے: وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیق۔ لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:27-28)۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں گے۔ تاکہ وہ ان فوائد کو دیکھیں۔
قرآن کی اس آیت کو جب کعبہ کی تاریخ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے، تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ منافع (benefits) کیا ہیں، جن کا مشاہدہ حاجی کو مکہ میں کرنا ہے۔جیسا کہ معلوم ہے کعبہ کو عالمی عبادت کے مرکز کے طور پر پیغمبر ابراہیم نے چار ہزار سال پہلے مکہ میں بنایا تھا۔ بعد کو جب رسول اللہ کی عمر 35 سال تھی، اس وقت قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے کعبہ کی عمارت بہت بوسیدہ ہوچکی تھی۔ اس وقت قریشِ مکہ نے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن جب قریش نے کعبہ کی تعمیر کا کام کیا تو انھوں نے کعبہ کی ابراہیمی عمارت میں سے دو تہائی حصے پر ہی کعبہ کی عمارت بنائی، اوربقیہ ایک تہائی (1/3) حصہ خالی چھوڑ دیا۔ اسی خالی حصے کو حطیم کہا جاتا ہے۔موجودہ کعبہ کی عمارت قریش ِمکہ کےتعمیر کے مطابق ہے۔
پیغمبر اسلام کو 8 ہجری میں مکہ پر فتح حاصل ہوئی، تو آپ نے کعبہ کی اس تعمیر کو بدستور باقی رکھا، جو قریش ِ مکہ نے کی تھی( صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1333)۔اب ساری دنیا کے حاجی جس کعبہ کا طوا ف کرتے ہیں، وہ پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل کا تعمیر کردہ ابتدائی کعبہ نہیں ہے، بلکہ اصل کعبہ کا باقی ماندہ پارٹ ہے، جس کو قریشِ مکہ نے حالتِ شرک میں تعمیر کیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پورے مشن میں اسی اصول کی پیروی کی۔ پیغمبر اسلام کو جب مکہ سے ہجرت کرنا پڑا، اور مدینہ کو آپ نے اپنا مرکز بنایا تو یہ گویا ارض مقدس کے باقی ماندہ حصہ (remaining part) کی بنیاد پر اپنے مشن کو جاری رکھنا تھا۔ یہ طریقہ نتیجہ کے اعتبار سے نہایت کامیاب رہا۔پیغمبر اسلام کو جب حالات کے تحت مکہ کو چھوڑ کرمدینہ جانا پڑا، اس وقت آپ نے شکایت کی کوئی بات نہیں کہی، بلکہ آپ نے برعکس طور پر یہ کہا: أُمِرْتُ بِقَرْیَةٍ تَأْکُلُ القُرَى، یَقُولُونَ یَثْرِبُ، وَہِیَ المَدِینَةُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا، جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔
اس حدیث میں مدینہ کا حوالہ شہرِ مدینہ کی فضیلت کے طور پر نہیں ہے، بلکہ وہ باقی ماندہ پر پلاننگ کی اہمیت کے طور پر ہے۔ یعنی مکہ سے ہجرت کے بعد جو کچھ ملے گا، وہی ساری دنیا میں خدائی مشن کے پھیلنے کا ذریعے بنے گا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ بتاتی ہے کہ مدینہ آکر یہاں کے آزادانہ ماحول میں آپ نے اپنے مشن کی ری پلاننگ (replanning) کی۔ یعنی باقی ماندہ حصہ (remaining part) کی بنیاد پر پلاننگ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ طریقہ نہایت کامیاب رہا۔
باقی ماندہ پر پلاننگ (planning on the remaining part) کے اصول کی یہ ایک مذہبی مثال تھی۔ اگر گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو سیکولر تاریخ میں فطرت کے اس اصول کی مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ تاریخ میں اس کی ایک کامیاب مثال جرمنی کی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، دوسری عالمی جنگ (1939-1945) ہوئی تو جرمنی اس جنگ کا سب سے زیادہ سرگرم ممبر تھا۔ مگر جنگ ختم ہوئی تو جرمنی ایک شکست خوردہ ملک تھا۔ حتی کے جرمنی نے اپنے ملک کا ایک تہائی حصہ کھودیا تھا، جو اب ایسٹ جرمنی کے نام پر اس کے دشمنوں کے قبضے میں جاچکا تھا۔ مگرجنگ کے بعد جرمنی نے ایسا نہیں کیا کہ جرمنی کے کھوئے ہوئے حصہ کو پانے کے لیے نفرت اور تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کردے۔ اس کے برعکس، یہ ہوا کہ جرمنی نے اپنے باقی ماندہ حصہ (remaining part of Germany) کو اپنی توجہ کا مرکز بنالیا۔ اس نے پوری یکسوئی کے ساتھ ویسٹ جرمنی کی تعمیر نو شروع کردی۔ یہاں تک کہ بہت جلد یہ انقلابی واقعہ پیش آیا کہ جرمنی ایک نئی صنعتی طاقت بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ یوروپ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن گیا۔
موجودہ زمانے کے مسلم رہنما تقریباً سب کے سب شکایت اور احتجاج کی بولی بولنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کے ظلم کا شکار ہیں۔ ان کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں، اور اس بنا پر وہ آج کی دنیا میں اپنا جائز مقام پانے سے محروم ہوگئے ہیں۔ مظلومیت پر فریاد کا یہ ذہن اتنا عام ہے کہ شاید پوری مسلم دنیا میں اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ مگر اصل واقعہ اس کے برعکس ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے نہ کعبہ کے پیغام کو اپنایا، اور نہ قوموں کی سیکولر تاریخ سے سبق سیکھا۔
مسلمان موجودہ زمانے میں جس محرومی کی شکایت کررہے ہیں، اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے خود اپنی غفلت کی قیمت ادا کرنا۔ یعنی مسلمانوں نے یہ نہیں کیا کہ وہ حاصل شدہ حصہ کو لے کر اپنی قومی تعمیر کی پلاننگ کریں۔ بلکہ جو کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کو لے کر وہ پلاننگ کررہے ہیں۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے، وہ صرف اسی غلطی کا نتیجہ ہے۔ وہ ہرگز کسی کی دشمنی یا سازش کا نتیجہ نہیں۔