سائنسی تحقیقات

الرسالہ کے ایک قاری لکھتے ہیں: قرآن کی ایک آیت ہے، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ابتدائے تخلیق کیسے ہوئی، اس پر غور و فکر کریں: قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْق (29:20)۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا۔اس پر علمی ڈیٹا تو دورِ جدید میں میسر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے خطاب کو سمجھنے کے لیے سائنسی تحقیقات کی بھی اہمیت ہے۔ ایسا سمجھنا کہاں تک درست ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، چنئی، تامل ناڈو)

اس معاملے میں آپ نے لفظ’’بھی‘‘ استعمال کیا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں سائنس پر مبنی جو تحقیقات ہوئی ہیں، وہ سب بلاشبہ اسلام کا حصہ ہیں۔ یہ تحقیقات جو تمام ترمیتھمیٹکس پر مبنی ہوتی ہیں، وہ بلاشبہ قرآن کے اس حکم کی تعمیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں یہ روایت آئی ہےکہ غیر اہلِ ایمان دین کی تائید کریں گے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ مبنی بر میتھمیٹکس اہل سائنس کی تحقیقات اسی تائیدِ دین کا حصہ ہیں۔ سائنس کی ایک تحقیقات وہ ہیں، جوریاضیات (mathematics) پر مبنی ہیں، ان کو ایکزیکٹ سائنسز (exact sciences) کہا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی تحقیقات بلاشبہ اسلامی تحقیقات کا حصہ ہیں۔ ان تحقیقات کو قرآن فہمی کا ذریعہ بنانا، اسی طرح درست ہے، جس طرح دوسرے فنون کو قرآن فہمی کے لیے بجا طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

میرے نزدیک ان سائنسی تحقیقات میں نظریۂ ارتقا شامل نہیں۔ نظریۂ ارتقا ایکزیکٹ سائنسز کا حصہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ میتھ میٹکس پر مبنی کوئی علم نہیں۔ اس کی بنیاد کچھ ایسی چیزوں پر مبنی ہے، جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے قیاس کا درجہ رکھتی ہیں۔ محققین نظریۂ ارتقا کو میتھمیٹیکل سائنس کا درجہ نہیں دیتے، بلکہ اس کو قیاسی علم کا درجہ دیتے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom