مشرق سے مغرب کی طرف
آخری زمانے میں پیدا ہونے والے واقعے کا ذکر ایک حدیث آیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: ایک آگ مشرق سے نکلے گی، اور لوگوں کو جمع کرکے لے جائے گی مغرب کی طرف(مسند احمد، حدیث نمبر12057)۔یہ حدیث ایک بڑے واقعے کا حصہ ہے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ شیطان کے اس چیلنج کا ایک حصہ ہے، جو اس نے آغازِ حیات میں کیا تھا۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اس نے کہا، ذرا دیکھ، یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر عزت دی ہے اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی تمام اولاد کو کھا جاؤں گا (17:62)۔
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں انسانی تاریخ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے تاریخ میں دو بڑے فتنے کھڑے کیے ہیں۔ ایک وہ جس کا ذکر قرآن میں میں آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: میرے رب، انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے (14:36)۔ قرآن کی اس آیت میں گمراہی کے پہلے دور کا ذکر ہے، جب کہ شیطان نے لوگوں کو نیچر ورشپ (nature-worship) کے فتنے میں ڈالا، یعنی لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ نیچر میں خدائیت (divinity) ہے۔ دورِ اول میں رسول اور اصحاب رسول نے یہ کیا کہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے نیچر اور ڈیونیٹی (nature and divinity) کو ایک دوسرے سے ڈی لنک کردیا۔ اس طرح نیچر ورشپ کا دور نظری طور پر ہمیشہ کے لیے دنیا سے ختم ہوگیا۔
اس ضمن میں دوسرا فتنہ یہ ہے کہ اللہ نے سائنس کو پیدا کیا دین کی معرفت کے طور پر۔ لیکن ابلیس نے سائنس کے دو پہلو کردیے۔ ایک، نظری سائنس(basic science)، جس سے خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسراہے اپلائڈ سائنس۔ تمام مادی فائدے اپلائڈ سائنس سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے سارے لوگ اپلائڈ سائنس کی طرف جارہے ہیں، اب بہت کم لوگ نظری سائنس کی طرف جاتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں مادی فائدہ نہیں۔