حدیث ِ جبریل کا پیغام

حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث، حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔،معروف سعودی عالم ابن عثیمین نے تحقیق کر کے بتایا ہے کہ حدیث جبریل کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا تھا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ زمانہ اہل اسلام کے لیے ہر اعتبار سے مظلومیت کا زمانہ تھا۔ جن چیزوں کو آج مظلومیت کا نام دیا جاتا ہے، وہ سب وہاں پورے معنوں میں موجود تھے، مگر آپ حدیث رسول کےمطابق دیکھیے تو اس میں مظلومیت کا کوئی ادنیٰ اشارہ آپ کو نہیں ملے گا۔

اس حدیث میں اسلام، ایمان، احسان، اور علامات قیامت کا ذکر ہے، لیکن مظلومیت کا اشارے کے درجے میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ حالاں کہ حدیث میں رسول اللہ کی زبان سےیہ الفاظ ہیں: ذَاکَ جِبْرِیلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ أَمْرَ دِینِکُمْ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2610)۔ یعنی وہ جبریل تھے، جوآئےتاکہ تم کو تمھارے دین کی تعلیم دیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مظلومیت کی بات امر ِدین میں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق قومی شکایت سے ہوسکتا ہے، لیکن خدا اور رسول کے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ زمانے میں مفروضہ مظلومیت کے حوالے سے مسلمان اپنے مفروضہ ظالموں کے خلاف جو بددعائیں کرتے ہیں، ان کا بھی دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ براہ راست طور پر جبریل کی شرکت سے جو اجتماع مدینہ میں ہوا تھا، اس میں سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ خلافت کے موضوع پر تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن آپ حدیث جبریل کو بار بار پڑھیے، آپ حیرت انگیز طور پر یہ دیکھیں گے کہ اس حدیث میں اشارہ اور کنایہ کے انداز میں بھی خلافت کے مسئلے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا معاملہ مسلمانوں کی اپنی ایجاد ہے، نہ کہ دینِ اسلام کا کوئی حکم یا تقاضا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom