دورِ امن کی طرف
قرآن میں اصحاب رسول کو ایک حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)۔ یعنی ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کا ہو جائے۔ قرآن کی اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں کہاگیا ہے کہ’’ جنگ کرو تاکہ فتنہ نہ رہے‘‘،اور دوسرے حصہ کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ دین سب اللہ کا ہو جائے‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے مطلوب کے لیے لڑنا ہوگا اور اس کے بعد دوسرا مطلوب اپنے آپ حاصل ہوجائے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدائی تخلیق کے مطابق انسانی دنیا میں حالت فطری قائم تھی، اور حالتِ فطری امن کی حالت ہے۔ بعد کو دنیامیں مطلق العنان بادشاہوں (despotic kings) کا زمانہ آیا۔ انھوں نے یہ کیا کہ حالتِ فطری کو ختم کرکے اس کی جگہ غیر فطری حالت قائم کردی، یعنی مذہبی جبروتشدد کی حالت۔ یہ حالت اللہ کو منظور نہ تھی۔ اللہ نےاصحابِ رسول کو حکم دیا کہ جن لوگوں نے انسانی دنیا میں خود ساختہ طورپر جبر وتشدد کی حالت قائم کررکھی ہے، اس کو بزور ختم کردو تاکہ دوبارہ انسانی دنیا میں حالتِ فطری قائم ہوجائے۔
قدیم زمانے میں مذہبی تشدد (religious persecution) اِس بنا پر قائم تھا۔ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے کے ارباب اقتدار سے جنگ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں ایک نیادور آگیا۔ یعنی جنگ کے دور کے بجائے امن کا دور۔ تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ اچانک نہیں ہوتا بلکہ وہ تاریخی عمل (historical process) کی صورت میں ابتدائی حالت سے شروع ہو کر تکمیل کی حالت تک پہنچتا ہے۔ تاریخ میں اس دور امن کا آغاز اہل اسلام نے کیا تھا۔ بعد کے زمانہ میں آزادی اور جمہوریت (freedom and democracy) کا جو دور آیا وہ اسی آغاز کا منتہا (culmination) ہے۔
اکیسویں صدی میں اب ہم اسی دور امن میں جی رہے ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ میں ’’دین سب کا سب اللہ کے لیے‘‘ ہوچکا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہوگیا ہے کہ یہ امن کے طریقِ کار (peaceful method) کو استعمال کرتے ہوئے ہر مقصد کو نارمل کورس (normal course) میں حاصل کرلیا جائے۔اسلام ایک مشن ہے، توحید کا مشن۔قدیم زمانہ میں اس مشن کو جاری کرنے کے لیے سخت رکاوٹیں پیش آتی تھیں۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ رکاوٹوں کے بغیر اسلام کے مشن کو جاری کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں اور اسی کے ساتھ جنگ اور تشدد کا طریقہ اختیار کرتےہیں وہ اپنے اس عمل سے یہ ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ دورِ جدید سے پوری طرح بے خبر (unaware) ہیں۔ ان کا کیس جہاد کا کیس نہیں ہے،بلکہ بے خبری(unawareness)کا کیس ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں قتال کا لفظ مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے گھر سے تلوار لے کر نکلو اور سب کو مارنا شروع کردو۔ جنگ در اصل آخری چارۂ کار کانام ہے۔ چنانچہ عرب میں ایسا نہیں ہوا کہ قرآن اترتے ہی رسول اللہ نے فوراً تلوار سنبھالی اور جنگ شروع کردی۔بلکہ جو واقعہ پیش آیا، وہ یہ ہے کہ نبوت ملنے کے بعد آپ نے اس مشن کو ممکن دائرے میں شروع کیا، مثلاً پہلے خاموشی کے ساتھ ممکن دائرے میں لوگوں کو سمجھانا بجھانا۔ اس کے بعد ٹکراؤ سے اعراض (avoid) کرتے ہوئے لمبی مدت تک پرامن انداز میں تبلیغ و دعوت کا کام کرنا۔ اگر فریقِ ثانی جنگ چھیڑنا چاہتا ہے توخاموش منصوبہ بندی کے ذریعے ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ جھڑپ (skirmishes) پر معاملہ ختم ہوجائے۔ خون بہانا، اور متشددانہ کارروائی کرنے سے آپ نے آخری حد تک پرہیز کیا۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو آپ کی قربانی سب سے زیادہ صبر کرنے کی قربانی تھی، نہ کہ جنگ و قتال کرنا۔ آپ کے مشن میں قتال بطور اقدام نہیں تھا، بلکہ بطور دفاع تھا۔
ایک مستشرق نے پیغمبر اسلام کے بارے میں کہا ہے کہ پیغمبر اسلام نے دشواریوں کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ آپ نے ناکامی سے کامیابی کو نچوڑلیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پرابلم کے درمیان موجود مواقع کو تلاش کیا، پھر مواقع کو استعمال کرکے پرابلم کو اپنے ترقیاتی سفر کا زینہ بنالیا۔