منصوبہ بند کام
انجینیرٔ س انڈیا لیمیٹیڈ (Engineers India Limited) ایک پبلک سیکٹر کمپنی ہے۔ اس کا قیام 1965 میں عمل میں آیا۔ یہ ایک انٹرنیشنل ادارہ ہے، اس کا ہیڈ آفس دہلی میں ہے۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کے میدان میں انجینیرٔ نگ اور ٹکنیکل سروس مہیا کرتا ہے۔ غالباً 1970 ء کی بات ہے، میری ملاقات اس ادارے کے ایک سینئر افسر سے ہوئی۔ وہ گرین پارک (نئی دہلی) میں رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران میں نے کہا کہ ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز ہارڈ ورک (hard work) ہے۔ انھوں نے جواب دیا:نہیں، یہ پرانے زمانے کا تصور (concept) ہے۔ آج کے زمانے میں ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز پلاننگ ہے۔ اب ترقی کا راز منصوبہ بندی ہے، نہ کہ صرف ہارڈ ورک۔
یہ نہایت درست بات ہے۔ پہلے زندگی سادہ تھی۔ کام کا دائرہ محدود ہوتا تھا۔ آدمی اپنے قریبی دائرے میں محنت کرکے کمائی کرسکتا تھا۔ مگر آج زندگی کا دائرہ بہت وسیع ہوچکا ہے۔ آج کی سوسائٹی ایک کامپلکس سوسائٹی ہے۔ آج انسان کو مسابقت میں جینا پڑتا ہے۔ آج بہت سے نئے تقاضے وجود میں آئے ہیں، جن کو پورا کیے بغیر کوئی شخص بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
مثلاً انڈیا کو لیجیے۔ انڈیا کو 1947 میں آزادی ملی۔ اس کے بعد عام تصور کے مطابق، مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ماحول میں مسلمانوں کے جو رہنما اٹھے، وہ سب کے سب ری ایکشن کی بولی بولنے لگے۔ ہر ایک یہ کہنے لگا کہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے، مسلمان امتیاز (discrimination) کا شکار ہورہے ہیں، مسلمان ایک مظلوم کمیونٹی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ آزادی کے بعد پچاس برس تک بہت کام کیا گیا۔ مگر سب کا سب بے فائدہ رہا۔ بظاہر’’ہارڈ ورک‘‘ کے باوجود مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ مل سکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم رہنما ؤں نے بظاہر ہارڈ ورک تو بہت کیا، لیکن ان کے ہارڈ ورک میں منصوبہ بندی شامل نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان صرف قربانیاں دیتے رہے، لیکن ان کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ ا س کا راز یہ ہے کہ مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کو منصوبہ بندی کا طریقہ نہیں بتایا۔ منصوبہ بند کام کا طریقہ یہ تھا کہ مسلم رہنما حالات کا گہرا مطالعہ کرتے۔ وہ یہ دریافت کرتے کہ انڈیا میں قانون فطرت کے مطابق، مسائل (problems)کے ساتھ کیا کیا مواقع پائے جاتے ہیں۔ فطرت کے اس قانون کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:6)۔ یعنی بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
مثال کے طور پر انڈیا میں مسلمانوں کے لیے بظاہر کچھ مشکلات تھیں، لیکن اسی کے ساتھ انڈیا میں کچھ ایسے میدان تھے، جو پوری طرح مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے تھے۔جیسے ایجوکیشن کا میدان۔ یہ میدان مسلمانوں کے لیے اسی طرح مکمل طور پر کھلا ہوا تھا، جس طرح دوسرے گروہوں کے لیے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے انتہائی بے خبری کے ساتھ یہ کیا کہ وہ ریزرویشن کا جھنڈا لے کر کھڑے ہوگئے۔ ان کا نعرہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دو، کیوں کہ مسلمان اس ملک میں ریزرویشن کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ یہ نعرہ فطرت کے قانون کے خلاف تھا۔ کیوں کہ اس دنیا میں کوئی گروہ فیور (favour) کے ذریعے ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف کامپٹیشن میں اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔
دنیا کے بنانے والے نے اس دنیا کو چیلنج (challenge) کے اصول پر بنایا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا اصول انسان کا خود ساختہ اصول ہوگا، جو کبھی عمل میں آنے والا نہیں۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقے کو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ مسلمانوں کو چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ منصوبہ بند طریقے سے اپنے آپ کو اتنا زیادہ تیار کریں کہ وہ ہر چیلنج کا مقابلہ مثبت انداز میں کرسکیں۔ یہ طریقِ کار اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ مسلمان ری ایکشن اور شکایت کا طریقہ مکمل طو رپر چھوڑ دیں۔وہ اپنی حالت کی ذمے داری خود قبول کریں، نہ کہ اس کو دوسرے کے اوپر ڈالیں۔