مذہبی انتہا پسندی

مذہبی انتہاپسندی (religious extremism) کیا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی در اصل نتیجہ ہے شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا۔ مذہب کی ایک اسپرٹ ہے۔ مثلاً نماز کی اسپرٹ خشوع ہے۔ خشوع پر خواہ جتنا زیادہ زور دیا جائے، اس سے مسائل نہیں پیدا ہوں  گے۔اسی کے ساتھ مذہب کا ایک فارم ہے۔مثلاً رفع یدین اور ترک رفع یدین، یہ مسئلہ فارم کا مسئلہ ہے۔ اس پر اگر زور دیا جائے تو لوگوں میں شدید اختلاف پیدا ہوجائے گا۔یعنی مذہب کی اسپرٹ پر اگر زور دیا جائے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر مذہب کے فارم پر زور دیا جانے لگے تو اس سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوگی، جو بڑھ کر تشدد کی صورت اختیار کر لے گی۔

اسلام کی تاریخ میں اس کی مثال یہ ہے کہ فقہ میں عبادت کے فارم پر زور دیا گیا تو اس سے مختلف فقہی مسالک بن گیے۔ جو بڑھتے بڑھتے متشددانہ فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ دوسر ی مثال، اس کے مقابلے میں یہ ہے کہ صوفیا نے عبادت کی اسپرٹ پر زور دیا۔ مگر تصوف کے حلقوں میں انتہا پسندی نہیں آئی۔ حالاں کہ یہاں بھی تصوف کے مختلف حلقے اور گروہ موجود تھے۔

قرآن کو آپ پڑھیں تو قرآن میں سارا زور اسپرٹ پر دکھائی دے گا، فارم پر نہیں۔ بلکہ قرآن میں فارم کا ذکر اتنا کم ہے، گویا کہ نہیں ہے۔ اس لیے قرآن کی بنیاد پر فرقے نہ بن سکے، جب کہ فقہ کی بنیاد پر کثرت سے فرقے بن گیے۔

اس مذہبی انتہاپسندی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عقیدہ کے معاملہ میں تکفیر اور تفسیق کا طریقہ رائج ہو جائے۔ ایک عقیدہ والے کو کافر بتایا جائے، اور دوسرے عقیدہ والے کو مسلم کہا جائے۔ یہ بھی شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis)کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے ایسا کیا، انھوں نے مسلم ملت میں کوئی تعمیری اضافہ تو نہیں کیا۔ البتہ ایک گروہ کو کافر بتانا اور دوسرے گروہ کو مشرک بتانے کے طریقہ نے ملت واحدہ کو امت متفرقہ بنا دیا۔

مذہب کے دائرہ میں اختلافات اسی طرح پیدا ہوتے ہیں، جس طرح زندگی کے دوسرے دائروں میں۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اختلاف کو ڈسکشن اور ڈائیلاگ کا موضوع بنایا جائے، نہ کہ ردّو قبول کا موضوع۔ اختلاف کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو آزادیٔ رائے (freedom of expression) کا ظاہرہ سمجھا جائے، نہ کہ حق و باطل کا ظاہرہ۔

حقیقت یہ ہے مذہب کا ایک فارم ہے اور ایک اس کی اسپرٹ ہے۔ جب مذہب کے فارم پر زور دیا جائے تو اس سے مذہبی انتہا پسندی(religious extremism) پیدا ہوتی ہے۔ اب کچھ لوگ ایک فارم پر زور دیتے ہیں، اور کچھ لوگ دوسرے فارم پر۔ اسی سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے، جو بڑھ کر تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مذہب میں سارا زور اسپرٹ پر دیا جائے۔ اسپرٹ اصل ہو، اور فارم کی حیثیت اضافی ہو۔ جب ایسا ہو تو مذہب میں رواداری (tolerance) آئے گی۔ لوگ فارم کےاختلاف کے بارے میں توسع پسند بن جائیں گے۔ ان کا ذہن یہ ہوگا کہ یہ بھی ٹھیک ہے، وہ بھی ٹھیک ہے۔ مثلاً نماز میں آمین بالسر بھی ٹھیک ہے، اور آمین بالجہر بھی ٹھیک ہے۔ اس توسع پسندی سے لوگوں میں روادار ی آئے گی، اور انتہاپسندانہ مزاج کا خاتمہ ہوگا۔

پہلے زمانے میں مذہبی انتہا پسندی کا مزاج زیادہ تر فقہی مسائل کے بارے میں ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ مسئلہ سیاست تک پھیل گیا ہے۔ سیاست میں اگر یہ مزاج ہو کہ ایک سیاسی ڈھانچہ بھی ٹھیک ہے، اور دوسرا سیاسی ڈھانچہ بھی ٹھیک ہے۔ مثلاًسیاسی نظام میں انتخابی ڈھانچہ بھی درست ہے، اور غیر انتخابی ڈھانچہ بھی درست۔ تو لوگوں کے اندر سیاسی رواداری پیدا ہوگی۔ اور اگر لوگوں کے اندر یہ مزاج بنادیا جائے کہ ایک سیاسی ڈھانچہ صحیح ہے، اور دوسرا سیاسی ڈھانچہ غلط۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عدم رواداری پیدا ہوگی، جو آخر کار تشدد تک پہنچ جائے گی۔

 

یہ فطرت کا قانون ہے کہ منفی عمل سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom