دورِ زوال کی ایک علامت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:یَخْرُجُ فِیکُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِہِمْ، وَصِیَامَکُمْ مَعَ صِیَامِہِمْ، وَعَمَلَکُمْ مَعَ عَمَلِہِمْ، وَیَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5058)۔ یعنی ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے کہا تمھارے درمیان ایسے لوگ ظاہر ہوں گے، جن کی نمازوں کے آگے تم اپنی نمازوں کو،اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے آگے، اور اپنے اعمال کو ان کے اعمال کےآگے کمتر سمجھوگے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
یہ حدیث رسول ایک قسم کی پیشین گوئی ہے۔ یہ ظاہرہ ہے، جو اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد میں اسپرٹ کا خاتمہ ہوجائے، اور فارم کی دھوم دھام اپنی آخری حد تک بڑھ جائے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد داخلی اسپرٹ کی کمی کی تلافی خارجی ظواہر کے اضافے سے کرنے لگیں۔جب معانی کی کمی الفاظ میں اضافہ کی صورت اختیار کرلے، جب لوگ خاموشی کی اہمیت سے بے خبر ہوجائیں، اور کلام کی اہمیتِ کثرت کو اس کا بدل سمجھ لیں۔ جب لوگوں کے اندر داخلی محاسبہ (internal introspection) کا شعور باقی نہ رہے، البتہ خارجی اظہار کی نمائش میں خوب اضافہ ہوجائے، جب انسان چپ رہنے کو کم سمجھے، اور بولنے کو بڑی چیز سمجھنے لگے۔
حدیث میں آیا ہے کہ تم (اصحاب رسول)اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے سامنے کمتر سمجھوگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صاحب ِمعرفت ایسا سمجھنے لگیں گے۔ بلکہ یہ بات در اصل ان لوگوں کی نسبت سے کہی گئی ہے، جو اپنے شعور کی کمی کی بنا پر ظاہر اور باطن میں فرق نہ کر سکیں گے۔ وہ ظواہر کی کثرت کو دیکھ کر یہ گمان کرلیں گے کہ ان کے اندر داخلی حقیقت بھی موجود ہے۔