تنقیدکوسن کر
خلیفہ ہارون الرشید(149-193ھ)نے ایک بار اپنے وزیرسے کہاکہ مجھ کو کسی بزرگ کے پاس لے چلو۔وہ خلیفہ کو الفضیل بن عیاض(105-187ھ)کے پاس لے گیا۔اس سلسلہ میں لمباقصہ کتابوں میں نقل ہواہے۔
خلیفہ کے ساتھ اس کے کئی درباری تھے۔انھوں نے فضیل سے مصافحہ کیا۔خلیفہ نے بھی مصافحہ کیا۔خلیفہ نے اپناہاتھ جب فضیل کے ہاتھ میں رکھاتو انھوں نے کہاکہ کتنازیادہ نرم ہے یہ ہاتھ، اگرکل کے دن وہ اللہ کے عذاب سے بھی بچ جائے(يَا لَهَا مِنْ كَفٍّ مَا أَلْيَنَهَا، إِنْ نَجَتْ غَدًا مِنْ عَذَابِ اللهِ)۔اس کے بعد خلیفہ نے فضیل سے کہاکہ کچھ نصیحت کیجیے۔انھوں نے تلخ نصیحت کے انداز میں کچھ کلمات کہے۔خلیفہ نے کہاکہ اورکچھ فرمائیے۔فضیل نے مزید کچھ کہا۔اس طرح وہ سخت تنقید ی انداز میں دیر تک خلیفہ کو ڈرانے والی باتیں کرتے رہے۔خلیفہ ان کی نصیحتوں کوسن کر روپڑا۔آخرمیں اس نے اپنے وزیرسے کہاکہ جب تم مجھ کو کسی آدمی کے پاس لے جائو تو اسی طرح کے آدمی کے پا س لے چلو۔یہ مسلمانوں کے سردارہیں:إِذَا دَلَلْتَنِي عَلَى رَجُلٍ فَدُلَّنِي عَلَى مِثْلِ هَذَا،هَذَا سَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ (حلیۃ الاولیاء للاصفہانی،جلد8، صفحہ 106-107)۔
آدمی کے اندراگرصحیح مزاج ہوتووہ نصیحت کو سن کر اس سے سبق لے گا،خواہ یہ نصیحت کتنے ہی سخت تنقیدی الفاظ میں کی گئی ہو۔ایساآدمی نصیحت کو اس کے معنوی اعتبار سے دیکھے گا نہ کہ اس کے لفظی اعتبار سے،وہ اس کو اصولی حیثیت سے لے گانہ کہ ذاتی حیثیت سے۔
صحیح مزاج اگربادشاہ کے اندرہوتووہ بھی تنقید کوسن کر اسے برداشت کرے گا۔اورایک معمولی آدمی بھی اگرصحیح مزاج نہ رکھتاہوتو وہ تنقیدکو سن کر بگڑجائے گا۔تنقیدکسی آدمی کو پہچاننے کی سب سے زیادہ یقینی کسوٹی ہے۔تنقید کو سن کر جو آدمی اپنے ذہنی توازن کونہ کھوئے وہی اعلیٰ انسان ہے۔ اورجو شخص تنقیدکو سن کر بگڑجائے،اس کے متعلق یہ کہنامشکل ہے کہ وہ اپنے اندراعلیٰ انسان والی خصوصیات رکھتا ہے— تنقید کسی آدمی کی انسانیت اوراس کے تقوی کی پہچان کراتی ہے۔