فقہی مسائل میں اختلاف

فقہی مسائل میں اختلاف کا معاملہ زیادہ ترعبادت کے طریقوں میں اختلاف سے تعلق رکھتا ہے۔اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

 صَلُّواكَمَا ‌رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي (صحیح البخاری،حدیث نمبر631)۔ یعنی تم نماز اس طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔

اسی طرح آپ نے فرمایا:

خُذُوا ‌عَنِّي ‌مَنَاسِكَكُمْ (سنن الکبریٰ للبیہقی،حدیث نمبر 9524)۔یعنی مناسک میں میری پیروی کرو۔

اس طرح کی احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہی غیراختلافی ماڈل تھا۔ لیکن رسول اللہ کے بعد صحابہ عملی اعتبار سے قابل تقلید نمونہ بن گئے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ مختلف بیرونی علاقوں میں پھیل گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ صحابہ کے عبادتی طریقوں میں کامل یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ مثلا نماز میں قرأت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا یا نہ پڑھنا، امام کے پیچھے مقتدی کا قرأتِ فاتحہ کرنا یا نہ کرنا، نماز میں آمین بالسر اور آمین بالجہر کا اختلاف،وغیرہ۔

صحابہ کے درمیان اس قسم کا اختلاف (صحیح تر لفظ میں فرق)پہلے بھی موجود تھا، مگر پہلے اس فرق کو بحث کا موضوع نہیں بنایا جاتا تھا۔بعد کے زمانے میں جب کہ مسلم معاشرے میں نو مسلموں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اس فرق پر سوال کیا جانے لگا۔اب اس اختلاف کو موضوع بنا کر یہ سوال کیا جانے لگا کہ ان میں سے صحیح تر ماڈل کون سا ہے۔یہ نومسلم جن مذاہب سے نکل کرآئے تھے، وہاں انھوں نے دیکھا تھا کہ اس قسم کے فرق کوبنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کے فرق کی بنیاد پر دوسرے مذاہب میں الگ الگ فرقے بنے ہوئے ہیں۔اپنے اس قدیم ذہن کو انھوں نے اسلام پر بھی منطبق (apply) کردیا۔اس ذہن کے تحت وہ اس وقت کے مسلم علما سے سوالات کرنے لگے۔یہی وہ ظاہرہ ہے جس نے اسلام میں مذہبی فرقہ بندی کے دور کا آغاز کردیا۔

اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیشگی ہدایت کے طور پر موجود تھی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: أَصْحَابِي ‌كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1760)۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے تم ہدایت پر ہوگے۔اس حدیث کے مطابق صحابہ کے درمیان عبادت کے طریقوں میں اختلاف تنوع (diversity) کی بنا پر تھا، یعنی ہر طریقہ جو کسی صحابی سے ثابت ہووہ یکساں طور پر درست ہے۔ عقلی طور پر تنوع کا یہ طریقہ قابلِ فہم تھا، کیوں کہ صحابہ کا اختلاف یا فرق صرف جزئیات (non-basics) میں تھا، وہ کلیات (basics) میں نہ تھا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ فطری قانون کے مطابق جزئیات میں ہمیشہ فرق پایاجاتاہے، جزئیات میں یکسانیت (uniformity) کا حصول ممکن نہیں۔

مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر یہ اختلاف مسلکی شدت کا سبب بن گیا۔ جب کہ یہ اختلاف خود صحابہ میں موجود تھا، مگر صحابہ کے درمیان ان اختلافات کی بنیاد پر کوئی مسلکی تشدد نہیں پیدا ہوا۔ اس کا سبب واضح طور پر یہ تھا کہ صحابہ مختلف طریقوں پر عبادت کرتے تھے، لیکن ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ فلاں طریقہ افضل ہے، اور فلاں طریقہ غیر افضل۔ وہ مختلف طریقوں پر اس طرح عمل کرتے تھے جیسے کہ ہر طریقہ یکساں طور پر درست ہو۔ مگر بعد کو ایسا ہوا کہ انہی اختلافات کو لے کرامت مختلف فرقوں، بلکہ متحارب گروہوں میں بٹ گئی۔ جب کہ اس قسم کی فرقہ بندی شریعت میں سخت نامحمود (الروم، 30:32) ہے۔اس معاملے میں اصل غلطی عباسی دور کے علمائے فقہ کی ہے، جن کو ائمۂ مجتہدین کہا جاتا ہے۔انھوں نے اس اختلاف کے موضوع پر بڑی تعداد میں کتابیں لکھیں۔ انھوں نےیہ کیا کہ ان اختلافات کو بطور خود وہ درجہ دے دیا جو کہ شریعت میں ان کا درجہ نہ تھا، اور نہ کسی صحابی نے ان اختلافات کے بارے میں ایسا کہا تھا۔

 ان فقہا نے یہ کیا کہ انھوں نے ترجیح (preference) کے نام سے بطور خود ایک اصول وضع کیا۔ انھوں نے لمبی بحثیں کر کے ایک طریقے کو راجح اور دوسرے طریقے کو مرجوح ثابت کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے اختلافات کو بیان کیا، اور پھر ایک مسلک کو لے کر کہا:

 هذا أَحْوَطٌ (یہ زیادہ محتاط طریقہ ہے)،

هذا أَفْضَلُ (یہ زیادہ افضل طریقہ ہے)۔

انھوں نے بطور خود ایک مسلک کو اولیٰ اور دوسرے مسلک کو غیر اولیٰ قرار دیا۔یہ بلاشبہ علمائے فقہ کی ایک اجتہادی غلطی تھی۔یہی وہ اجتہادی غلطی ہے جس نے امت میں فقہی تشدد کا آغاز کر دیا، جو پھر کبھی ختم نہ ہو سکا۔

یہ انسان کی نفسیات ہےکہ اس کے لیے جب انتخاب افضل اور غیر افضل کے درمیان ہو تو وہ ہمیشہ افضل کا انتخاب کرے گا۔ وہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے دلائل دے گا۔بعد کے زمانے میں انسان کی یہی نفسیات بروئے کار آئی، اور فقہی مسلک میں اختلاف کے نتیجے میں نفرت اور تشدد حتیٰ کہ جنگ تک کو جائز کر لیا گیا۔

اس معاملے میں دورِ اول کے علما کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مسلک کوقابلِ ترجیح قرار دینے کے باوجودوہ مسلک کے بارے میں متشدد نہ تھے۔ مثلا حنفی اور شافعی فقہانماز میں بسم اللہ پڑھنے کے قائل تھے، جب کہ مالکی فقہا اس کے قائل نہ تھے، مگر دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کی۔اسی طرح امام شافعی فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنے کے قائل تھے، جب کہ امام ابو حنیفہ اس کےقائل نہ تھے،مگر جب امام شافعی امام ابوحنیفہ کے مقبرہ کے پاس گئے اور وہاں فجر کی نماز ادا کی تو انھوں نے دعائے قنوت نہیں پڑھی، وغیرہ۔مگر اس طرح کا عمل صرف انفرادی اخلاق کو ثابت کرتا ہے، اور شرعی اختلاف کے حل کے لیے شرعی اصول درکار ہے، نہ کہ انفرادی اخلاق۔

دینی امور میں جب کسی ایک طریقہ کو دوسرے طریقے کے مقابلے میں افضل بتایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ افضل طریقہ میں زیادہ ثواب ہے، اور غیر افضل طریقہ میں کم ثواب ہے۔ ایک فقہی عالم اگر افضلیت اور غیر افضلیت کی زبان میں اس طرح کا مسئلہ بتائے، اور اس کے بعد مخالف مسئلہ بتانے والے عالم کے پیچھے ایک بار نماز پڑھ لے تو اس قسم کے عمل سے فقہی تشدد ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ عمل لوگوں کی نظر میں ذاتی نوعیت کا ایک اخلاقی برتاؤ یا حسنِ معاشرت قرار پائے گا، نہ کہ کوئی شرعی مسئلہ۔اوریہ ایک حقیقت ہے کہ جب حسن معاشرت اور دینی افضلیت کے درمیان انتخاب (choice) ہو تو آدمی ہمیشہ اس طریقے کو لے گا جس کو افضل بتایا گیا ہے، اور غیر افضل پر عمل کرنے والے کو کم تر سمجھ لے گا۔ اس طرح کےشرعی معاملے میں حسنِ معاشرت کبھی فیصلے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔یہ مزاج یقیناًبڑھتے بڑھتے آخرکار فقہی تشدد اور فرقہ بندی کی صورت اختیار کر لے گا۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ امت کے اندر بعد کے زمانے میں جو فقہی تشدد اور مسلکی فرقہ بندی پیدا ہوئی، اس کا سبب خود دین کی تعلیمات میں نہ تھا۔ اس کا سبب تمام تر علمائے متقدمین کی اس اجتہادی غلطی میں تھا کہ انھوں نے غیر ضروری طور پر ایک ایسے معاملے میں توحد کااصول اختیار کیا جوکہ دراصل توسع کا معاملہ تھا۔ ایک دینی اختلاف جو دراصل توسع (diversity) کی بنا پر تھا، اس کے معاملے میں انھوں نے توحد (uniformity) کے اصول کو منطبق کرنا چاہا۔ ان کی یہ کوشش یقینی طور پر غیر فطری تھی، اس بنا پر توحد کے نام پر کی جانے والی کوشش تشدد کا ذریعہ بن گئی، اور آخر کار امت واحدہ،امتِ متفرقہ میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔

اس واقعے کی ذمے داری ساری کی ساری فقہائے متقدمین پر ہے۔ اس صورتِ حال کی اصلاح صرف اس وقت ہو سکتی ہے، جب کہ فقہائے متقدمین کے بارے میں یہ مانا جائے کہ انھوں نے بطورِ خود اختلافی مسائل کےحل کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ ان کی ایک اجتہادی غلطی تھی، اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس غلط روش کو ترک کردیا جائے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom