اختلاف ایک صحت مند ظاہرہ
علامہ ابن تیمیہ کی کتاب الفتاوی الکبریٰ (مجموعہ فتاویٰ) میں ایک واقعہ اِن الفاظ میں آیا ہے:
صنَّفَ رجلٌ كتابًا سمّاه كتاب ’’الاختلاف‘‘، فقال أحمدُ بن حنبلٍ: سمِّهِ كتاب ’’السَّعَة“(جلد3، صفحہ 238)۔ یعنی ایک شخص (اسحاق بن بہلول) نے ایک کتاب لکھی۔ اُس نے اِس کتاب کا نام ’’کتاب الاختلاف‘‘ رکھا۔
یہ کتاب اُس نے امام احمد بن حنبل کی خدمت میں پیش کی۔ امام احمد بن حنبل نے اس کتاب کو دیکھ کر کہا کہ تم اِس کتاب کا نام کتاب الاختلاف نہ رکھو، بلکہ تم اِس کتاب کا نام کتاب السعۃ (توسع والی کتاب) رکھو۔
امام احمد بن حنبل کا مطلب یہ تھا کہ شرعی مسائل میں اختلاف محض اختلاف نہیں ہے، بلکہ وہ توسّع کی بنا پرہے، یعنی ہر رائے میں صحت کا امکان ہے۔
تاہم یہ توسع سادہ مفہوم میں محض رواداری کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اُس کا ایک مثبت پہلو ہے۔ وہ یہ کہ اختلاف ڈسکشن (discussion)کا ذریعہ بنتا ہے اور ڈسکشن سے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
اختلاف سے مراد نزاع نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد سادہ طورپر رائے کا فرق (difference) ہے۔ رائے کا یہ فرق یا اختلاف بے حداہم ہے۔ اِسی کی بنا پر ڈسکشن اور ڈائیلاگ ہوتا ہے اور تبادلۂ خیال (exchange of thought) وجود میں آتاہے۔ اگر رایوں میں فرق نہ ہو تو باہمی تبادلۂ خیال وجود میں نہیں آئے گا، حالاں کہ ذہنی ارتقا کے لیے تبادلۂ خیال بے حد ضروری ہے۔ جہاں تبادلۂ خیال نہیں، وہاں ذہنی ارتقا بھی نہیں۔
واضح ہو کہ اختلاف اور مخالفت میں فرق ہے۔ اختلاف ایک مثبت عمل ہے۔ اس کے برعکس، مخالفت سر تاسر ایک منفی عمل۔ اختلاف فکری ارتقا کا سبب ہے اور مخالفت فکری جمود (intellectual stagnation)کا سبب۔