اختلاف اور اتحاد
ہر ایک اتحاد چاہتاہے، لیکن عملاً اتحاد قائم نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کو قائم کرنے کے لیے جو تدبیر اختیار کی جاتی ہے، وہ غیر فطری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کے نام پر بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں، لیکن عملاً اتحاد قائم نہیں ہوتا۔
اتحاد کے علم برداروں کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ اختلاف کو مٹا کر اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اختلاف (differences) کی موجودگی ہی اتحاد قائم نہ ہونے کا اصل سبب ہے۔ ہر ایک کی کوشش یہ ہے کہ اختلافات کو مٹا دیا جائے۔ اُن کا خیال ہے کہ حقیقی اتحاد اُسی وقت قائم ہوسکتاہے، جب کہ لوگوں کے درمیان آپس کے اختلافات کا خاتمہ کردیا جائے۔ مگر اِس قسم کا اتحاد اِس عالم امتحان میں کبھی واقعہ بننے والا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اختلاف (differences) خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہیں، اور جو چیز فطرت کا حصہ ہو، اس کو ختم کرنا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحاد قائم کرنے کا ایک ہی ممکن طریقہ ہے، اور وہ ہے— اختلاف کو برداشت کرنا۔ اِس دنیا میں جب بھی اتحاد قائم ہوگا، وہ اختلاف کے باوجود متحد ہونے سے قائم ہوگا۔ اختلاف کو مٹا کر اتحاد قائم کرنا اس دنیا میں عملاً ممکن ہی نہیں۔
خالق نے انسان کو اِس طرح پیدا کیا ہے کہ ان کے درمیان ہمیشہ اختلاف پایا جائے۔ یہ اختلاف انسان کے لیے ایک عظیم رحمت ہے۔ اختلاف کی بنا پر دو شخصوں یا دو گروہ کے درمیان ڈائیلاگ ہوتاہے، اور ڈائیلاگ دونوں فریقوں کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بنتا ہے۔ اختلاف کی حیثیت ایک فکری چیلنج کی ہے۔
فکر ی چیلنج کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بند ذہن کے دروازے کھلتے ہیں، انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات ظاہر ہوتے ہیں، جو چیز بالقوہ (potential) طورپر ذہن میں موجود تھی، وہ بالفعل (actual) وقوع میں آجاتی ہے۔