امت میں اختلاف کا مسئلہ

 امت کے افراد میں دینی مسائل کے بارے میں ہمیشہ اختلاف پایا گیا ہے۔ اِس طرح کے اختلافات کے بارے میں کچھ لوگوں نے شدت اختیار کی اور اس کو حق اور ناحق کا مسئلہ بنادیا۔ لیکن علمائے اسلام کی اکثریت یہ مانتی ہے کہ غیر اساسی امور میں اختلاف فطری چیز ہے۔ ایسے اختلافات کو حق اور ناحق کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ مثال کے طورپر آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم شمس الدين ابن مفلح (وفات1326ء) نے اپنی کتاب ’’الفروع‘‘میں اِس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علماءِ امت کا اختلاف ایک رحمتِ واسعہ ہے:اختِلافُهُم رَحمَةٌ واسِعَةٌ (الفروع مع شرحہ تصحیح الفروع،جلد11، صفحہ103)۔

اختلاف کے معاملے کا یہی ایک پہلونہیں ہے کہ اس میں شدت نہ اختیار کی جائے، بلکہ رایوں کے کثرت کو توسّع پر محمول کرتے ہوئے ہر ایک کا احترام کیا جائے۔ اِس کے علاوہ، اِس کا ایک مزید مثبت پہلو بھی ہے۔ اِس معاملے کی طرف ایک روایت میں اشارہ کیا گیا ہے:اخْتِلَافُ ‌أُمَّتِي ‌رَحْمَةٌ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی،حدیث نمبر 39)۔ یعنی میری امت کا اختلاف ایک رحمت ہے۔

اختلاف سادہ طورپر صرف اختلاف نہیں، وہ رائے میں فرق کا نام ہے۔ اختلاف بند ذہن کو کھولتا ہے۔ رایوں کا فرق (difference of opinions)لوگوں کے اندر ڈسکشن اور ڈائیلاگ کا ماحول پیدا کرتا ہے، وہ فکری ارتقا کا ذریعہ ہے۔یہ اختلاف کا صحت مند پہلو ہے۔ اگر لوگوں میں رائے کا اختلاف نہ ہو تو ایسے گروہ کے اندر ذہنی جمود پیدا ہوجائے گا۔ اِس کے برعکس، جہاں رائے میں فرق پایا جائے، وہاں ذہنی ارتقا کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اِس معاملے میں اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر علمی ذوق ہو۔ اُن کے اندر طلب پائی جائے۔ وہ کسی تعصب کے بغیر تبادلۂ خیال کرنا جانتے ہوں۔ جن لوگوں کےاندر یہ مزاج ہو، اُن کے لیے اختلاف فکری ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا، وہ لوگوں کے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کا باعث بنے گا، نہ کہ ذہنی جمود اور انتشار پیدا کرنے کا سبب۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom