فکری تعدّد، فکری حریت
اسلام میں فکری آزادی (intellectual freedom)کامل درجے میں پائی جاتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) پورا نہیں ہوسکتا۔ انسان کو موجودہ دنیا میں ابتلا (test) کے لیے رکھا گیا ہے اور یہ مقصد صرف اُسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی پوری آزادی حاصل ہو۔
اسلام فکری آزادی کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے، لیکن فکری تعدد (intellectual diversity) کا تصور اسلام میں نہیں۔ اسلام کے مطابق، ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ جس رائے کو چاہے، اختیار کرے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر رائے باعتبار حقیقت بھی درست ہے۔ اِس معاملے میں اسلامی تصور یہ ہے کہ باعتبارِ حقیقت تو صرف ایک ہی رائے درست ہے، لیکن باعتبارِ آزادی ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے اِس دنیا میں جس رائے کو چاہے اختیار کرے۔
ابتلا کے سوا اِس اصول کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ فکری آزادی کے ماحول میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈسکشن ہو اور آزادانہ ڈسکشن سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سماج کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل (process) جاری رہے۔
فکری آزادی کا تصور انسان کی ذہنی ترقی کے لیے بے حد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر ذہنی ترقی ممکن نہیں۔ کسی سماج میں فکری آزادی کو ممنوع (taboo) قرار دینا صرف اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ سماج فکری جمود(intellectual stagnation) کا شکار ہوجائے۔ لیکن فکری تعدد کے نظریے کو اگر اصولاً درست مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوگی، وہ فکری انتشار (intellectual anarchy) ہے، اور فکری انتشار ایک غیر صحت مند (unhealthy) حالت ہے، فکری انتشار کسی آدمی کو کنفیوژن(confusion)کے سوا کہیں اور نہیں پہنچاتا۔