اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر

قدیم زمانہ میں کہا جاتا تھا کہا :لحَرْبُ أنفَى لِلحَرْبِ (جنگ کا توڑ جنگ ہے)۔ یہ فکر ہزاروں برس سے انسان کے اندر چلا آرہا تھا۔ بد قسمتی سے یہی فکر تاریخی تسلسل کے نتیجہ میں خود مسلمانوں میں کسی نہ کسی طورپر جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اب تک کی مسلم تاریخ میں اس کے نمونے پھیلے ہوئے ہیں۔ 1948 میں فلسطین کا مسئلہ پیدا ہوا، جو عملاً پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس وقت بھی تمام مسلم ذہن اسی ڈھنگ پر سوچنے لگے۔ اس سوچ کی نمائندگی ایک عرب شاعر خیر الدین زرکلی (1893-1976)کے شعر میں ان الفاظ میں ملتی ہے:

هَاتِي صَلَاحَ الدِّينِ ثَانِيَةً فِينَا            وَجَدِّدِي حِطِّينَ أَوْ شِبْهَ حِطِّينَا

یعنی صلاح الدین ایوبی کو ایک بار پھر ہمارے درمیان لاؤ اور حطین یا اس جیسا کوئی اور معرکہ دوبارہ برپا کرو۔اقبال اپنے علم اور ذہانت کے باوجود اس فکر سے اوپر نہ اُٹھ سکے۔ ان کا پورا کلام کسی نہ کسی طورپر اسی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ مثال کے طورپر ان کا یہ شعر پڑھیے:

گفتند جہان ما آیا بتو می سازد   گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن

یعنی پوچھا گیا کہ میری دنیا کا نظام تمہیں پسند آیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہا گیا: اسے درہم برہم کرڈالو۔ مگر اسلام نے اختلاف کے معاملہ میں زمانی رجحان کے برعکس فطری اصول رائج کیا۔ جنگ کیوں ہوتی ہے۔جنگ ہمیشہ اختلافات کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ لوگ اختلاف کو صرف مٹانا جانتے تھے، اس لیے وہ فوراً فریقِ ثانی سے لڑ جاتے تھے۔ اسلام نے اس معاملہ میں ایک نئے اُصول کو رواج دیا۔ قرآن میں یہ اُصول ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:الصُّلْحُ خَيْرٌ( 4:128)۔یعنی، صلح بہتر ہے۔

 صلح کیا ہے۔ صلح یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے پر زور نہ دیا جائے بلکہ اختلاف کو گوارہ کرتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے(الصُّلْحُ يَختَصُّ بِإِزَالَةِ النِّفَارِ بَيْنَ النَّاسِ) مفردات القرآن للاصفہانی،صفحہ 489۔ گویا اس کا مطلب ہے، اختلاف کے باوجود اتحاد۔ اس فارمولے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

Art of difference management

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی تدبیر کا عملی نمونہ ہے۔ مثال کے طورپر آپ نے قدیم مکہ میں 610ء میں دعوتِ توحید کا مشن شروع کیا۔ اس وقت توحید کے نقطۂ نظر سے مکہ میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ توحید کے گھر (کعبہ) میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ مگر اس وقت قرآن میں اس مفہوم کی کوئی آیت نہیں اتری:طَہِّرْ الْكَعْبَةَ مِنَ الْأَصْنَامِ(کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔بلکہ اس کے بجائے قرآن میں یہ آیت اتری:وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ(74:4)۔ یعنی، اپنے اخلاق کو درست کرو۔

اس قرآنی اُصول پر عمل کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے یہ کیا کہ آپ نے مکہ کے تیرہ سالہ قیام کے زمانہ میں کبھی بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ لوگوں کو توحید کا پیغام دینے کی پر امن جدوجہد شروع کردی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ان میں ایک نمایاں مثال صلح حدیبیہ 628ء کا واقعہ ہے۔ یہ صلح گویا ڈیفرنس مینجمنٹ (difference management) کی ایک کامیاب مثال تھی جو انسانی تاریخ میں غالباً پہلی بار نہایت کامیابی کے ساتھ قائم کی گئی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سخت انتباہ دیا تھا کہ اختلاف خواہ کتنا ہی بڑا ہو وہ ہرحال میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو حل کرے۔ کسی بھی حال میں وہ ایسا نہ کرے کہ اتحاد کے نام پر اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرے۔ حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے بعد امراء اور حکام کے اندر بگاڑ آئے گا مگر تم ہرگز ان سے ٹکراؤ نہ کرنا۔ تم ظلم کے باوجود ان کا حق ادا کرنا اور اپنے حق کے لیے اللہ سے دعا کرنا(أَدُّوا ‌إِلَيْهِمْ ‌حَقَّهُمْ وَسَلُوا اللهَ حَقَّكُمْ)صحیح البخاری،حدیث نمبر 7052۔

اس معاملہ میں ایک حدیث وہ ہے جو ابوداؤد، الترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں آئی ہے۔ یہ ایک لمبی روایت ہے، اس کا آخری حصہ یہ ہے:وَإِنِّي ‌لَا ‌أَخَافُ ‌عَلَى ‌أُمَّتِي إِلَّا الْأَئِمَّةَ ‌الْمُضِلِّينَ، فَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (مسند احمد، حدیث نمبر 17115)۔ یعنی مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ گمراہ کن لیڈروں سے ہے او رجب تلوار میری امت میں داخل ہوگی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی۔

اس حدیث کا مطلب در اصل یہ ہے کہ امت میں جب اختلافات پیدا ہوں گے تو نا اہل لیڈر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو رفع نہ کرسکیں گے بلکہ وہ اختلاف کو دور کرنے کے نام پر لڑائی چھیڑ دیں گے اور جب ایک بار امت میں دین کے نام پر لڑائی کی روایت قائم ہوگئی تو اجتماعی نفسیات کی بنا پر وہ قیامت تک جاری رہے گی۔

حدیث کی یہ پیشین گوئی بد قسمتی سے امت کی بعد کی تاریخ کے بارے میں درست ثابت ہوئی۔ امت کے اندر وضعِ سیف (بذریعہ تلوار فیصلہ) کا طریقہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان کی شہادت کے ساتھ شر وع ہوا۔ اس کے بعد وہ اس طرح مسلسل جاری ہو گیا کہ امت کی ہزار سالہ تاریخ میں وہ کبھی ختم نہیں ہوپایا۔ خلیفہ چہارم اور دمِ عثمان کے نام پر اُٹھنے والوں کے درمیان جنگ،حضرت حسین اور یزید کے درمیان جنگ، بنوامیہ اور بنو عباس کے درمیان جنگ، سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ، مغلوں اور غیر مغلوں کے درمیان جنگ، اسی طرح موجودہ زمانہ میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان جنگ، وغیرہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اخْتِلَافُ أمتِی رَحْمَة (المقاصد الحسنۃ للسخاوی،حدیث نمبر 39)۔ یعنی،میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف (difference) خدا کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ فطرت کا ایک لازمی جزء ہے اس لیے اختلاف کبھی زندگی سے ختم نہیں ہوتا۔ امت کے اصحابِ علم و معرفت کو چاہیے کہ وہ اس راز کو سمجھیں اور اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرنے کے بجائے اختلاف کے ساتھ جینے کا طریقہ اختیار کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ڈیفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلہ کو حل کریں۔ اس طرح سنت کی پیروی کی صورت میں اختلاف امت محمدی کے لیے رحمت بن جائے گا۔ اختلاف کے ہوتے ہوئے وہ ترقی کا پرامن سفر کامیابی کے ساتھ طے کر سکیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دوسری بہت سی سنتیں ہیں اسی طرح وہ چیز بھی ایک سنت رسول ہے جس کو ہم نے آرٹ آف ڈیفرنس مینجمنٹ کا نام دیا ہے۔ اس اُصول کا تعلق اسلام کے تمام پہلوؤں سے ہے، کوئی بھی پہلو اس سے خالی نہیں۔

مثال کے طورپر فقہی اختلافات جو ہزار سال سے اب تک ٹکراؤ کا سبب بنے ہوئے ہیں ان کے معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا سادہ اُصول یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ اختلافات توسع پر مبنی ہیں،نہ کہ تعددپر۔ ان میں سے جس طریقہ کی بھی پیروی کی جائے وہ درست ہوگا(بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ) جامع بیان العلم لابن عبد البر، حدیث نمبر 1760۔

اسی طرح حضرت علی اور حضرت معاویہ کا معاملہ یا یہ سوال کہ چاروں خلفاء کے درمیان تفضیل کی بحث۔ اس قسم کے معاملات میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق (application) یہ ہے کہ اس کو خدا کے حوالہ کردیا جائے اور ہر فرقہ اپنی آج کی تعمیری ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہوجائے۔

موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم ملکوں میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان تباہ کن ٹکراؤ جاری ہے۔ اس معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا انطباق یہ ہے کہ اسلام پسند جماعتیں حکومت کے دائرہ میں براہ راست مداخلت کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ غیر حکومتی دائرہ، مثلاً تعلیم اور اصلاح اور دعوت کے شعبوں میں اپنی کوششیں صرف کریں۔

موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان لیڈر یا مسلم گروہ مختلف ملکوں میں کسی نہ کسی قومی یا ملّی مقصد کے حوالہ سے غیر مسلم حکومتوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا سلسلہ جاری کیے ہوئے ہیں۔ مثلاً فلسطین اور کشمیر او رچیچنیا اور فلپائن،وغیرہ میں۔ ان مقامات پر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور صرف مسلّمہ پرامن طریق کار کی پابندی کرتے ہوئے اپنی تحریک چلائی جائے۔

قرآن کی آیت:الصُّلْحُ خَيْرٌ(4:128) بتاتی ہے کہ ڈیفرنس مینجمنٹ کا مذکورہ طریقہ مطلق طورپر خیر کا سبب ہے۔ وہ ہر حال میں قابلِ عمل ہے۔ یہ طریقہ صرف اس وقت ناقابل عمل بن جاتا ہے جب کہ مسلمان تشدد کا آغاز کرکے فضا کو بگاڑدیں۔ تشدد کا آغاز لازمی طورپر جوابی تشدد پیدا کرے گا اور پر امن طریق کار کو اختیار کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اگر مسلمان یہ غلطی کریں کہ تشدد کا آغاز کرکے وہ صورت حال کو بگاڑ دیں تو خود انہیں کو دوبارہ صورت حال کو نارمل بنانے کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں تا کہ وہ موافق فضا پیدا ہو جس میں ڈیفرنس مینجمنٹ پر عمل کرنا ممکن ہو جائے۔

اسلام دین فطرت ہے۔ مذکورہ اصول فطرت ہی کا ایک اصول ہے جس کو اسلام میں اختیار کیا گیاہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں لازماً ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مختلف اعتبار سے اتنا زیادہ فرق پایا جاتا ہے کہ ہر انسان کو مسٹر ڈیفرنس کہنا صحیح ہوگا۔ اس دنیا میں ہر سماج فرق و اختلاف والا سماج ہے۔ یہ فرق و اختلاف چونکہ خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے اس لیے اس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔

ایسی حالت میں قابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ فرق کے ساتھ نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے نہ کہ فرق کو مٹانے کا۔

It requires difference management rather than eliminating the difference.

فطرت کے اس اصول کا تعلق مذہبی معاملہ سے بھی ہے اور سیکولر معاملہ سے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بھی نظام مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کامیاب طورپر وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو ڈیفرنس مینجمنٹ کا آرٹ جانتے ہوں۔ فرق و اختلاف کو مٹانا تشدد پیدا کرتا ہے اور فرق و اختلاف کو مینج کرنا امن اور ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔

فرق و اختلاف کوئی بُرائی نہیں، وہ ترقی کا زینہ ہے۔ فرق و اختلاف سے اجتماعی زندگی میں چیلنج پیدا ہوتا ہے۔ اور چیلنج کا سامنا کرنا ہی اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا واحد راز ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom