اختلاف ایک برکت

عمر بن عبدلعزیز (وفات101 ھ)کو اسلام کی تاریخ میں پانچویں خلیفۂ راشد کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: مَا سَرَّنِي لَوْ أَنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَخْتَلِفُوا، ‌لِأَنَّهُمْ ‌لَوْ ‌لَمْ ‌يَخْتَلِفُوا ‌لَمْ تَكُنْ رُخْصَةٌ (الفقیہ و المتفقہ للخطیب البغدادی،جلد 2، صفحہ 116)۔ یعنی میرے لیے یہ چیز باعث مسرت نہیں کہ اصحاب محمد میں اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر وہ اختلاف نہ کرتے تو ہم کو رخصت کا فائدہ نہ ملتا۔

عبادتی امور میں صحابہ کا اختلاف بعد کے زمانے میں مختلف فقہی اسکول کا ذریعہ بن گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے علما نے اختلاف کے معاملے میں ترجیح کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی مختلف مسالک میں کسی ایک طریقہ کو راجح اور کسی کو مرجوح قرار دینا۔ اس سے فقہ میں مختلف مدرسے بن گئے۔ اور بالآخر امت کے اندر فقہی تشدد پیدا ہوگیا۔

عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول ایک حدیث پر مبنی ہے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَصْحَابِي ‌كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1760)۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو، تم ہدایت پر رہوگے۔

صحابہ کا اختلاف اساسی امور (basics)میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ جزئی امور(non-basics) میں ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں ہمیشہ تنوع (diversity)مطلوب ہوتی ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں توحد (یکسانیت) تلاش کرنا، غیر فطری ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے جزئی اختلاف کو تنوع پر محمول کیا جائے، ان کو توحد کا موضوع نہ بنایا جائے۔ اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں امت کے اندر اتحاد باقی رہے گا۔ اس کی خلاف ورزی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امت کے اندر اختلاف و انتشار پیدا ہوجائے گا۔ ایک امت کئی فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ اختلاف بڑھ کر غلو اور تشدد کی صورت اختیار کرلے گا۔ اسلام کے بعد کے زمانے کی تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom