شکایت ختم کرنے کا طریقہ
سماجی زندگی میں بار بار ایساہوتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے سے شکایت اور اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ بات خاندان کے اندر بھی ہوتی ہے اور خاندان کے باہر بھی۔ جب ایسا ہوتا ہے تولوگ عام طور پر یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ اپنے رویے کو درست ثابت کریں۔ شکایت اور اختلاف پیدا ہونے کے بعد ہر ایک ایسا ہی کرتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح شکایتیں ختم نہیں ہوتیں۔ لوگ بظاہر چپ ہوجاتے ہیں لیکن جو شکایت تھی وہ بدستور دل میں باقی رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا سماج پورا کا پورا شکایت سے بھرا ہوا سماج بن گیا ہے۔ ہر ایک منفی نفسیات میں جیتا ہے۔ مثبت نفسیات میں جینے والا انسان کہیں نظر نہیں آتا۔
اس معاملے کا حل صرف یہ ہے کہ موجودہ طریقے کو ختم کردیا جائے۔ شکایت پیش آنے کی صورت میں اس کی صفائی کی کوشش نہ کی جائے، بلکہ سیدھے طورپر اپنی غلطی مان لی جائے۔ اپنے کو درست ثابت کرنے کے بجائے یہ کہہ دیا جائے کہ— میں غلطی پر تھا، مجھے معاف کردو۔ یہ طریقہ عظیم اخلاقی قدر(moral value)کا حامل ہے۔ اپنی غلطی نہ ماننا، ہمیشہ کبر کی بنا پر ہوتا ہے، لیکن بحث کے بغیر اپنی غلطی کو مان لینا، آدمی کے اندر وہ عظیم صفت پیدا کرتا ہے جس کو تواضع (modesty) کہا گیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ اختلافی معاملے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ معاملہ ذاتی شکایت کا معاملہ ہو۔ اور دوسرا یہ کہ وہ معاملہ علمی اور دینی معاملہ ہو۔ اگر معاملہ ذاتی شکایت کا ہو تو اس کو ختم کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ حقیقی معنوں میں کس کی غلطی تھی، بلکہ تواضع کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے فوراً خود اپنے کو غلط مان لیاجائے۔ اِس طرح معاملہ فی الفور ختم ہوجائے گا۔البتہ اگر معاملہ علمی یا دینی ہو، یعنی اس کا تعلق اصولی نوعیت کا ہو تودلائل کے ذریعے اس کی وضاحت کی کوشش کرنا چاہیے۔ مگر یہاں بھی ضروری ہے کہ بات کو صرف دلائل تک محدود رکھا جائے، اُس کو ضد تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ دلیل کے ذریعے جو بات ثابت ہوجائے اُس کو دونوں فریق مان لیں۔ اِس طرح نہ صرف یہ کہ معاملہ ختم ہوگا، بلکہ وہ دونوں کے لیے ذہنی اور روحانی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔