ذهني ارتقا كا ذريعه
علمائے سلف کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے درمیان دینی مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا تھا۔ اِس کے باوجود ہر عالم دوسرے عالم کا احترام کرتا تھا۔اِس سلسلے میں یہاں دو واقعات نقل کیے جاتے ہیں: امام احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کے درمیان ایک مسئلے پر بحث ہوئی اور بحث ایسی ہوئی کہ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ آپس میں بد مزگی پیدا ہوجائے گی(وَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى خِفْتُ أَنْ يَقَعَ بَيْنَهُمَا جَفَاءٌ)، لیکن علی بن المدینی واپس جانے لگے تو امام احمد بن حنبل نے ان کے ساتھ اِس درجہ احترام کا معاملہ کیا کہ آگے بڑھ کر ان کی رکاب تھام لی (جامع بیان العلم لابن عبد البر، جلد2، صفحہ 107)۔
اِسی طرح یونس صدقی امام شافعی کے ایک ممتاز شاگرد ہیں۔ ایک مرتبہ کسی مسئلے میں استاذ سے خوب بحث ہوئی۔ پھر جب اگلی ملاقات ہوئی تو امام شافعی نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ کیا یہ بات بہتر نہ ہوگی کہ ہم بھائی بھائی بن کررہیں، خواہ کسی مسئلے میں بھی ہمارے درمیان اتفاق پیدا نہ ہوسکے: أَلَا يَسْتَقيمُ أَنْ نَكُوْنَ إِخْوَاناً وَإِنْ لَمْ نَتَّفِقْ فِي مَسْأَلَة (سیر اعلام النبلاء،جلد10،صفحہ 16)۔
اِس طرح کے واقعات کا مطلب صرف باہمی احترام (mutual respect) نہیں ہے، بلکہ اِن واقعات میں ایک اور زیادہ بڑا پہلو ہے اور وہ ہے اختلافِ رائے (difference of opinion) کا احترام۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اختلاف ِ رائے کو علمی پہلو سے دیکھنا، نہ کہ شخصی پہلو سے۔
اختلافِ رائے کا احترام کوئی سادہ بات نہیں، اس کا براہِ راست تعلق ذہنی ارتقا سے ہے۔ جس ماحول میں اختلافِ رائے کو برا نہ سمجھا جائے، وہاں لازماً ڈسکشن کا ماحول ہوگا۔ لوگ علمی دلائل کے ذریعے اپنا اپنا نقطۂ نظربیان کریں گے۔ جہاں اختلافِ رائے کو برا سمجھنے کے بجائے اختلافِ رائے کا احترام پایا جاتا ہو، وہاں ذہنی جمود نہ ہوگا، بلکہ ایسے ماحول میں ذہنی ارتقا کا عمل جاری رہے گا اور ذہنی ارتقا بلاشبہ کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔