تنقید و اختلاف
تنقید کو بند کرو، اختلافِ رائے کو ختم کرو، تاکہ اُمت میں اتحاد ہو سکے— یہ جملہ گرامر کے اعتبار سے درست ہے،مگر وہ حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہے۔ کیوں کہ تنقید و اختلاف انسانی زندگی کالازمی حصہ ہے، اس لیے وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ زیادہ صحیح اور قابلِ عمل بات یہ ہےکہ تنقید کو گوارا کرو، اختلافِ رائے کو برداشت کروتاکہ امت میں اتحاد ہو سکے۔ کسی قوم میں اتحاد ہمیشہ اسی دوسرے اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، اور امت ِمسلمہ میں بھی اتحاداسی بنیاد پر ہو گا۔ اس کے سوااتحاد کی دوسری کوئی صورت نہیں۔
صحابہ وتا بعین کے درمیان اختلافات تھے۔ اسی طرح محدثین،فقہا، علما اور صوفیا، ان سب کے درمیان کثرت سے اختلافات تھے۔ حتی کہ قرآن سے ثابت ہے کہ دنیا میں بیک وقت دوپیغمبر ہوں تو ان کے درمیان بھی کبھی اختلاف ہو جاتا ہے (طہ، 20:92-94)۔ ایسی حالت میں اختلاف کوختم کرکے اتحادقائم کرنے کی شرط نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ وہ غیر شرعی بھی ہے۔
تنقید واختلاف کوئی برائی نہیں۔ وہ فکری ارتقا کاذریعہ بنتی ہے۔ مثال کے طورپر غزوۂ بدر کے موقع پر ایک صحابی حباب بن منذرنے پیغمبر سے اختلاف کیا۔ اس کے نتیجہ میں زیادہ بہتر میدا نِ جنگ کاانتخاب ممکن ہو گیا،وغیر ہ(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ620)۔
اصل یہ ہے کہ انسان دوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک طالب ِخویش اور دوسراطالب ِحق۔ طالبِ خویش اپنی ذات میں جیتا ہے۔ اس کی ساری دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ اس کی اپنی شخصیت نمایاں ہو۔ اس کی بڑائی تسلیم کی جائے۔ یہی وہ آدمی ہے جو تنقید و اختلاف سے بھڑکتا ہے۔ کیوں کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ تنقید اس کی شخصی عظمت کو گھٹارہی ہے۔
طالب ِحق کی نفسیات اس سے بالکل جدا ہوتی ہے۔وہ صرف حق کا طالب ہوتا ہے۔ وہ تنقید کواپنی ذات پر حملہ نہیں سمجھتا۔ وہ تنقید کوصرف اس نظر سے دیکھتا ہے کہ وہ حق ہے یا ناحق۔ تنقید اگر غلط ہے تو وہ سادہ طور پر اسے نظرانداز کردیتا ہے۔ لیکن تنقید اگر برحق ہے تو وہ فوراًاس کو قبول کرلے گا۔ کیونکہ ایسی تنقید میں اس کو عین وہی چیز ملتی ہوئی نظرآئی جو پہلے سے اس کا مطلوب ومقصود تھی۔