اختلاف کا مسئلہ
مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر مذہبی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف بڑھ کر کبھی تشدد کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ عام طورپر سمجھا جاتاہے کہ اِن اختلافات کا سبب مدارس کا نصاب ہے۔ ان کے خیال کے مطابق، اگر مدارس کے نصاب میں اصلاح کردی جائے تو اختلاف کا خاتمہ ہوجائے گا اور لوگوں کے اندر اتحاد واتفاق کی حالت قائم ہوجائے گی۔
مگر یہ اصل صورتِ حال کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کا سبب فطرتِ انسانی میں ہے، نہ کہ مدارس کے نصاب میں۔ پیدائش کے اعتبار سے، ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ(Mr. Different) ہوتا ہے اور ہر عورت مس ڈفرنٹ۔
یہی فطری فرق اختلاف کا اصل سبب ہے۔ اگر تمام مدارس کا نصاب ایک کردیا جائے تب بھی اختلاف باقی رہے گا، کیوں کہ خواہ نصاب کی سطح پر اختلاف نہ ہو تب بھی فطرت کی سطح پر اختلاف موجود رہے گا، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
حضرت علی (وفات 40ھ)اور حضرت معاویہ(وفات 60ھ) دونوں ایک ہی مدرسہ، مدرسۂ نبوت، کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ ابو الحسن اشعری (وفات 936ء) معتزلی عالم ابو علی الجبائی (وفات916ء)کے شاگرد تھے،اس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔موجودہ زمانے میں سرسید احمد خاں (وفات1898ء)اور مولانا قاسم نانوتوی (وفات 1880ء) دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی(وفات1949ء) اور مولانا حسین احمد مدنی (وفات1957ء) دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا سید سلیمان ندوی (وفات 1953ء)اور مولانا مسعود علی ندوی (وفات1967ء)دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
اصل یہ ہے کہ خواہ دو آدمیوں نے ایک ہی مدرسہ اور ایک ہی نصاب کے تحت تعلیم پائی ہو، لیکن طرز فکر (way of thinking) کی سطح پر ہمیشہ ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ یہی فرق ہے جو اختلاف کا سبب بن جاتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑھ کر نفرت اور تشدد تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اختلاف یا فرق چوں کہ فطرتِ انسانی کا حصہ ہے، اِس لیے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ ایسی حالت میں اختلاف کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ناکام طورپر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو اُس اصول کی تعلیم دی جائے جس کو ’’اختلاف کے باوجود اتحاد‘‘ کہاجاتا ہے۔ یعنی رائے (opinion) کی سطح پر اختلاف، سماجی تعلق (social relationship) کی سطح پر اتفاق۔
انسانوں کے طرز فکر میں اختلاف کوئی غیر مطلوب چیز نہیں، بلکہ وہ عین مطلوب ہے۔ کیوں کہ اِس اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ڈسکشن اور ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور ڈسکشن اور ڈائیلاگ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ جہاں ڈسکشن اور ڈائیلاگ نہ ہو، وہاں یقینی طورپر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا، اور ذہنی جمود سے زیادہ تباہ کن اور کوئی چیز انسان کے لیے نہیں۔
ابو عمرو زَبّان بن العلاء مکہ میں 68ھ میں پیدا ہوئے۔154ھ میں کوفہ میں ان کی وفات ہوئی۔ علم و ادب میں وہ بہت اونچا درجہ رکھتے تھے۔ ان کا ایک قول ہے کہ ضرورت مند رہ جانا اس سے بہتر ہے کہ نااہل لوگوں سے حاجت روائی کی درخواست کی جائے (احْتِمَالُ الْحَاجَةِ خَيْرٌ مِنْ طَلَبِهَا مِنْ غَيْرِ أَهْلِهَا)۔
ان کا ایک اور قول یہ ہے کہ دو آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے کوئی مجلس تنگ نہیں ہوتی لیکن دو نفرت کرنے والوں کے لیے ساری دنیا تنگ ہوجاتی ہے (مَا ضَاقَ مَجْلِسٌ بِمُتَحَابِّينَ، وَمَا اتَّسَعَتِ الدُّنْيَا لِمُتَبَاغِضِينَ) شذرات الذهب لابن العماد، جلد2، صفحہ 250۔( ڈائری، مولانا وحید الدین خاں، 2جنوری1995)