عُسر میں یُسر
علما کے ذہن پر سیاست و حکومت کے غیر ضروری تسلط کا سب سے زیادہ مہلک نقصان یہ ہوا کہ جدید انقلاب میں انھیں ہرطرف بس ظلم اور سازش اور مصائب نظر آئے۔ اس انقلاب کے اندر چھپے ہوئے امکانات و مواقع کو دیکھنے سے وہ کلی طور پر محروم رہے۔ اور جو لوگ مواقع کو دیکھنے سے محروم رہیں وہ یقینی طور پر ان کو استعمال کرنے سے بھی محروم رہتے ہیں۔
قرآن (94:5-6)میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے یہاں ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ضرور موجود رہے۔ یہاں ہر مسئلہ کے ساتھ ہی مواقع بھی ضرور پائے جائیں (فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا)۔
قدیم تفسیروں میں اس آیت میں مَعَ کی تفسیر مَعَ (ساتھ) کے ذریعہ کی گئی ہے۔ مثلاً مفسر ابن کثیر نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ عسر کے ساتھ یسر پایا جاتا ہے (أخبر تعالى أن مع العسر يوجَدُ اليسر)۔
مگر موجودہ زمانہ کے علما پر زمانی مسائل کا اتنا غلبہ تھا کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے اپنے غیر واقعی ذہنی تاثر کے تحت آیت میں یہ تصرف کیا کہ مع کو بعد کے معنی میں لے لیا۔ اور اس کے مطابق اس کی تشریح کر ڈالی۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی تفہیم القرآن میں سورۃ الانشراح کی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’اس بات کو دو مرتبہ دہرایا گیا ہے تاکہ حضور کو پوری طرح تسلی دے دی جائے کہ جن سخت حالات سے آپ اِس وقت گزر رہے ہیں یہ زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کے بعد قریب ہی اچھے حالات آنے والے ہیں۔ بظاہر یہ بات متناقض معلوم ہوتی ہے کہ تنگی(عسر) کے ساتھ فراخی (یسر) ہو۔ کیوں کہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوتیں۔ لیکن تنگی کے بعد فراخی کہنے کے بجائے تنگی کے ساتھ فراخی کے الفاظ اس معنی میں استعمال کیے گئے ہیں کہ فراخی کا دور اس قدر قریب ہے کہ گویا وہ اس کے ساتھ ہی چلا آ رہا ہے۔‘‘
اس تفسیر میں مَعَ کی ساری اہمیت ختم ہوگئی۔ حالانکہ مَعَ کا لفظ یہاں بہت بامعنی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسی کے ساتھ حل کی صورتیں بھی موجود رہتی ہیں۔ یہاں ہر ڈس ایڈوانٹیج (disadvantage) اپنے ساتھ ایڈوانٹج (advantage) کو بھی ضرور لے آتا ہے۔
مغربی تہذیب اور مغربی استعمار کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ مسلم دنیا کے اوپر ایک بلا کے طور پر نازل ہوا۔ مگر اسی کے ساتھ اس میں زبردست قسم کے موافق امکانات بھی ہمارے لیے موجود تھے۔ اور سب سے بڑا موافق امکان یہ تھا کہ اس نے اسلام کی دعوت کے ایسے نئے اور طاقتور امکانات کھول دیے جو پچھلی تاریخ میں کبھی حاصل نہ تھے۔ علما اگر اس راز کو سمجھتے اور اس کو استعمال کرتے تو وہ تاریخ جدید کے المیہ کو امت کے حق میں طربیہ بنا دیتے۔ مگر مذکورہ ذہن کی وجہ سے وہ اس کو سمجھ نہ سکے۔
