ایک صحیح آواز
سید رشید رضا(1865-1935ء) دارالعلوم ندوۃ العلما، لکھنؤ ،کی دعوت پر1912ء میں ہندستان آئے تھے۔ اس کے بعد وہ دیوبند کے دارالعلوم میں گئے۔ وہاں انھوں نے اساتذہ اور طلبہ کے سامنے عربی میں ایک مفصل تقریر کی جو دارالعلوم دیوبند کی روداد (1330ھ،1912ء) میں درج ہے۔ اس تقریر میں انھوں نے علما کو اشاعت اسلام کے کام کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا:
’’اسلام کی اشاعت کا دوسرا حصہ بت پرستوں سے متعلق ہونا چاہیے۔ ہندستان میں سیکڑوں قسم کے بت پرست ہیں۔ یہاں بتوں کو پوجنے والے، درختوں اور پتھروں کو پوجنے والے، چاند، سورج، ستاروں اور دوسری لغویات کو پوجنے والے موجود ہیں۔ اگر ہمارے پاس دعاۃ اور مبلغین کی ایک مضبوط جماعت موجود ہو تو ان لوگوں میں اسلام کی اشاعت اس قدر سرعت کے ساتھ ہو سکتی ہے جو اس وقت ہمارے تصور میں بھی نہیں آ سکتی۔ ہمیں عیسائیوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ کامیابی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک خاص بات اور ہے جو ہر ایک دور اندیش مسلمان کی توجہ کے لائق ہے۔ اور وہ یہ کہ ہندستان میں مسلمانوں کی تعداد غیر مسلموں کے مقابلہ میں اتنی کم ہے کہ ان کی ہستی کو اس ملک میں ہمیشہ معرض خطر میں سمجھنا چاہیے۔ انگریزی حکومت جو عقل و عدل کی حکومت ہے، اس نے غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان موازنہ قائم رکھا ہے۔ اگر کبھی یہ موازنہ ٹوٹ جائے تو آپ خیال کر سکتے ہیں کہ کیا نتیجہ ہوگا۔ غالباً یہاں کے مسلمانوں کا وہی حشر ہوگا جو اندلس کے مسلمانوں کا ہوا تھا۔ اس لیے ہم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو ان شبہات کو رفع کرے جو اسلام پر عاید کیے جاتے ہیں۔ یہ شبہات جو موجودہ زمانہ کے علوم کی بنا پر پیدا ہوئے ہیں ان کا دور کرنا بہت ضروری ہے۔ مگر ان شبہات کا رفع کرنا بغیر فلسفہ جدید کی واقفیت کے ناممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس جماعت کے اشخاص فلسفہ جدید کے اہم مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں‘‘ (الجمعیۃ ویکلی، دہلی،6 فروری1970)۔
یہ بلاشبہ ایک صحیح رہنمائی تھی۔ مگر ہندوستانی علما میں سے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جس نے اس رہنمائی کو لائق توجہ سمجھا ہو۔ اس طرح کی اور بھی بعض انفرادی مثالیں ہیں جب کہ کسی صاحب بصیرت شخص نے علما کو اس طرف دلائی کہ وہ بے فائدہ سیاست کو چھوڑ کر نتیجہ خیز عمل میں اپنی قوتیں لگائیں۔ مگر ایسے اشخاص کی رائے موثر نہ بن سکی اور علما کا قافلہ مسلسل اپنی تباہ کن سیاست کی طرف چلتا رہا۔
غالباً اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آخری صدیوں میں علما نے تنقید کو ایک مبغوض چیز سمجھ لیا۔ علما کے حلقہ میں تنقید اتنی غیر اہم تھی کہ وہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے تھے۔ علما کی اکثریت صرف یہ جانتی تھی کہ ہمارے’’اکابر‘‘ کا طریقہ یہی تھا۔ مذکورہ قسم کی انفرادی رائیں چونکہ اکابر کے اوپر تنقید کے ہم معنی تھیں، اس لیے پہلے ہی مرحلہ میں وہ قابل رد قرار پا گئیں۔ علما کے لیے یہ ناقابل فہم تھا کہ وہ اکابر کے طریقہ پر نظرثانی کریں اور اس کو غلط بتا کر اپنے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کریں۔
اس کی ایک مثال سید احمد بریلوی کی تاریخ میں ملتی ہے۔ ان کے ساتھیوں اور مریدوں میں ایک مولانا میر محبوب علی(1200-1280ھ) تھے۔ ان کو سید احمد بریلوی سے اس وقت اختلاف پیدا ہوا جب انھوں نے پنجاب کے سکھ راجہ کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا۔ سید صاحب نے یہ فیصلہ کشف کی بنیاد پر کیا تھا۔ محبوب علی صاحب نے کہا کہ’’اے میرے سید، جہاد کا مدار مشورہ پر ہے(نہ کہ کشف اور خواب پر)۔
اس کے بعد سید صاحب کے قافلہ کے لوگ محبوب علی صاحب کے سخت مخالف ہوگئے۔ سید احمد بریلوی نے اس کے جواب میں ان کہا’’تمہاری اطاعت خاموشی کے ساتھ سننے کی ہونی چاہیے، ایسی خاموشی جیسی اس پہاڑ کی ہے جو میرے سامنے کھڑا ہے۔‘‘ محبوب علی صاحب نے اس کو نہیں مانا اور سید صاحب کا ساتھ چھوڑ کر اپنے وطن کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ سید صاحب نے کہا:من ذَهَبَ مِنْ عِنْدِي إِلَىٰ وَطَنِهِ مُرَاجِعاً فَقَدْ ذَهَبَ إِيمَانُهُ (جو شخص میرے پاس سے اپنے وطن کی طرف لوٹ جائے گا اس کا ایمان اس سے چلا جائے گا) مولانا اسماعیل دہلوی اور تقویۃ الایمان، از مولانا شاہ ابوالحسن زید فاروقی، صفحہ86-87۔
اسلام میں اجتماعی امور کی بنیاد شوری پر رکھی گئی ہے(الشوری،42:38) شوری صحت فیصلہ کی ضمانت ہے۔ مگر صحیح شوری کے لیے تنقید اور اختلاف رائے کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ موجودہ زمانہ کے علما کے درمیان چونکہ تنقید اور اختلاف رائے کا ماحول نہیں، اس لیے ان کے یہاں حقیقی شوری کا وجود بھی نہیں۔
ہندستان میں مسلمانوں کے علاوہ جو قوم آباد تھی، وہ شرک کو ماننے والی قوم تھی، شرعی نقطہ نظر سے یہاں علما کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان مشرکین کے درمیان ایک ایسی تحریک اٹھائیں جس کی بنیاد تردید شرک اور اثبات توحید پر قائم ہو۔ اور یہ کام ہر گز مناظرانہ انداز میں نہ ہو بلکہ موعظت حسنہ کے انداز میں ہو۔ وہ نصح اور امانت کے جذبہ کے تحت اٹھائی گئی ہو۔ لیکن پچھلے تین سو سال میں کوئی تحریک تو درکنار کوئی ایک عالم بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اس کام کا واضح شعور رکھتا ہو اور اس کام کی اہمیت کی طرف لوگوں کو متوجہ کرے۔
یہ کام اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس کو چھوڑنے کے بعد پوری کی پوری قوم اللہ کی نظر میں بے قیمت ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کام کو چھوڑ کر دوسرا جو کام بھی کیا جائے گا۔ وہ حبط اعمال کا شکار ہوتا رہے گا۔ وہ کبھی مسلمانوں کی عزت اور سرفرازی کا سبب نہیں بن سکتا۔
اورنگ زیب عالم گیر کے زمانہ میں یہ اہل شرک مسلمانوں کے لیے رعیت کی حیثیت رکھتے تھے، ان کے درمیان دعوت توحید کا مصلحانہ کام نہایت آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا تھا۔ مگر علما اس موقع کو استعمال نہ کر سکے۔ انھوں نے مشرک قوم کو گمراہی سے نکالنے کے لیے کوئی حقیقی محنت انجام نہیں دی۔
انیسویں صدی کے وسط سے باقاعدہ طور پر انگریزی حکومت کا دور شروع ہوا۔ انگریزوں نے اپنی سیاسی مصلحت کے تحت ملک کے مختلف فرقوں کے درمیان موازنہ قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ اس کے نتیجہ میں اہل اسلام اور اہل شرک کی حیثیت برابر برابر کی ہوگئی۔ اس دوسرے دور میں بھی دعوتی کام کے مواقع پوری طرح موجود تھے۔ مگر علما نے اب بھی ان مواقع کو استعمال نہیں کیا۔ اس کے برعکس، انھوں نے یہ کیا کہ کچھ علما آزادی ہند کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے اور کچھ علما تقسیم ہند کے جھنڈے کے نیچے۔ جب کہ یہ دونوں ہی تحریکیں مذکورہ دعوت توحید کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی تھیں۔
مذکورہ دونوں تحریکیں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں۔ ایک طرف بھارت کی صورت میں ایک آزاد ملک ظہور میں آیا اور دوسری طرف پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کا قومی ہوم لینڈ۔ مگر دونوں ہی ملکوں میں مذکورہ دعوت کے مواقع کم سے کمتر ہوگئے۔ بھارت میں اس لیے کہ یہاں اہل شرک نے اکثریت کی بنا پر غالب حیثیت حاصل کر لی اور مسلمان مغلوبیت کی حالت میں چلے گئے۔ پاکستان میں اس لیے کہ دو قومی نظریہ کے نتیجہ میں اہل شرک کی حیثیت ایک حریف گروہ کی ہوگئی نہ کہ مدعو گروہ کی۔
یہ بلاشبہ ایک ناقابل معافی جرم ہے جو علما کی براہ راست رہنمائی کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کی واحد تلافی یہ ہے کہ کھلے دل سے غلطی کا اعتراف کیا جائے اور حال کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اب وہ کام شروع کر دیا جائے جو ماضی کے مواقع میں انجام نہ دیا جا سکا۔
