حجۃ اللہ البالغہ
شاہ ولی اللہ دہلی کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ بہت مشہور کتاب ہے۔ اس کو اسلام کی مدلل ترجمانی سمجھا جاتا ہے۔ مصنف نے کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کہ یہ کتاب میں نے علم اسرار الدین پر لکھی ہے۔ قدیم خیال یہ تھا کہ شریعت کے احکام مصالح پر مبنی نہیں ہوتے۔ یہ گویا آقا کی طرف سے اپنے بندے کے لیے حکم ہے اور اس کی اطاعت یا عصیان پر جزا و سزا کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
مصنف نے قرآن و حدیث کی بہت سی مثالیں دے کر بتایا ہے کہ یہ خیال صحیح نہیں۔ کیوں کہ خود شارع نے اپنے متعدد احکام میں یہ اشارہ کیا ہے کہ وہ مصالح پر مبنی ہیں۔ مثلاً وَلَکُمۡ فِیۡ الۡقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاۡ أُولِیۡۡ الأَلۡبَاب (البقرہ179) یاصدقہ کے بارے میں یہ حدیث کہ: تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ ۔( صحيح البخاري،حدیث نمبر 1508) اسی طرح انھوں نے صحابہ و تابعین کے کچھ اقوال جمع کیے ہیں جن میں مصالح احکام کا تذکرہ ہے بعد کے زمانہ میں علما کے یہاں بھی جزئی طور پر اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً الغزالی، الخطابی، ابن عبدالسلام وغیرہ(3-6)
تاہم حجۃ اللہ البالغہ کا معاملہ ایک استثنائی معاملہ ہے۔ کیوں کہ یہ کتاب مکمل طور ر اسرار شریعت ہی کے موضوع پر ہے۔ مصنف کے بیان کے مطابق، ان کو بطریق کشف اس کا اشارہ ملا۔ پھر اللہ نے ان پر الہام کیا(ثُمَّ الَھَمَنِی رَبِّیْ ) کو وہ اس قسم کی ایک کتاب لکھیں۔ حتیٰ کہ خواب میں حضرت حسنین نے ان کو ایک قلم دیا اور کہا کہ:ھذَا قَلَمُ جَدِّنَا رَسُولُ اللّہ صَلَّی اللہ عَلیہ وَسَلَّم۔ اس قسم کی چیزیں بتاتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’إِنَّ ا لشَّرِیْعَۃَ الْمُصْطَفَوِیَّۃَ أَشْرَفَتْ فی ھذَا الزَّمَانِ عَلیٰ أَنْ تَبْرُزَ فِی قُمُصٍ سَابِغَۃٍ مِنَ الْبُرْھَانِ‘‘ (صفحہ3)۔ یعنی ، شریعت محمدی کے لیے اس زمانہ میں وہ وقت آگیا کہ وہ دلیل و برہان کے مکمل پیراہن کے ساتھ جلوہ افروز ہو۔
علما، خاص طور پر ہندستانی علما، اس کتاب کو ایک معرکۃ الآراء کتاب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس میں موجودہ دور عقلیت کے لیے تشفی کا وافر سامان موجود ہے۔ حتیٰ کہ ان کا خیال ہے کہ کسی مذہب کی عقلی تائید اور اس کی حکیمانہ توجیہ کے موضوع پر آج تک اس پایہ کی کتاب نہیں لکھی گئی(216)۔ نواب صدیق حسن خاں(1822-1890) نے لکھا ہے کہ اسرار احکام کے موضوع پر بارہ سو سال کے درمیان عرب و عجم کے کسی عالم کی ایسی کوئی کتاب موجود نہ تھی(مثل آں دریں دوازدہ صد سال ہجری، ہیچ یکے از علما عرب و عجم تصنیفے موجود نیامدہ)
میرے پاس حجۃ اللہ البالغہ کا وہ نسخہ ہے جو قاہرہ(دارالتراث) سے1355ھ میں چھپا ہے۔ اس کا جلد اول198 صفحہ پر مشتمل ہے اور جلد ثانی215 صفحہ پر۔ زیرِ نظر مقالہ کی ترتیب کے دوران میں نے اس کتاب کو تقریباً مکمل دیکھا۔ بعض حصے کئی کئی بار پڑھے۔ مگر میں بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ساری کتاب میں کوئی ایک بھی ایسا بیان نہیں ملا جس کو جدید سائنٹفک معیار کے مطابق، عقلی دلیل کا درجہ دیا جا سکتا ہو۔
کتاب کا نام(حجۃ اللہ البالغہ) جو قرآن کی ایک آیت سے ماخوذ ہے، وہ بلاشبہ نہایت اعلیٰ ہے۔ مگر اصل کتاب حجت بالغہ کے انداز میں نہیں، بلکہ صرف تقلیدی انداز میں شریعت اسلامی کی تشریح کرتی ہے۔ اس کتاب کی ترتیب بنیادی طور پر کتب فقہ کی ترتیب پر قائم کی گئی ہے۔ یہ ترتیب بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ شاہ ولی اللہ قدیم تقلیدی ڈھانچہ سے باہر نہ نکل سکے۔ کیوں کہ ابوابِ فقہ دراصل ابوابِ احکام ہیں، نہ کہ ابواب اسرار۔
کتاب کے مباحث عام طور پر اِعْلَمْ کے لفظ سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ بھی تقلیدی مزاج کا ثبوت ہے یہ اس دور کا انداز کلام ہے جب کہ آدمی مقام عالم سے بولتا تھا۔ جدید انداز کلام مقام علم سے بولنے کا ہے۔ مگر شاہ ولی اللہ اس فرق کو سمجھ نہ سکے۔ اسی طرح کتاب میں جگہ جگہ نَبِیِّنَا لکھا گیا ہے۔ یہ بھی ایک غیر علمی اسلوب ہے جو صرف اعتقادی کتابوں کے لیے موزوں ہے۔ علمی اعتبار سے اصل موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ہمارے نبی تھے۔ اصل موضوع بحث یہ ہے کہ کیا وہ خدا کے نبی تھے۔ اس کتاب میں سُترہ سے لے کر سیاست مدن تک ہر چیز پر کلام کیا گیا ہے، مگر سب کا سب تقلیدی اور اعتقادی اسلوب میں ہے، نہ کہ حقیقتاً علمی اسلوب میں۔
مثال کے طور پر نیت اور عبادت کی تشریح میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں:اِعْلَمْ أَنَّ النِیَّۃَ رُوْحٌ وَالْعِبَادَۃُ جَسَدٌ وَلَاحَیَاۃَ لِلْجَسَدِ بِدُونِ الرُّوْحِ (جلد 1، صفحہ 83)۔ یعنی، جان لو کہ نیت روح ہے اور عبادت جسم ہے۔ اور روح کے بغیر جسم کی کوئی زندگی نہیں۔
اسرار الصلاۃ کے تحت لکھتے ہیں: أَحْسَنُ الصَّلَاۃِ مَاکانَ جَامِعًا بَیْنَ الْأَوْضَاعِ الثَّلَاثَۃِ مُتَرَقِّیَاًمِنَ الْاَدْنیٰ اِلَی الْاَعْلیٰ لِیحَصَل التَّرَقِّی فِی اسْتِشْعَارِ الْخُضُوعِ وَالتَّذَلُّلِ (جلد 1، صفحہ 73) یعنی، بہترین نماز وہ ہے جس میں تینوں وضع جمع ہو جائے۔ جس میں ادنی سے اعلیٰ کی طرف ترقی ہو(قیام پھر رکوع پھر سجدہ) تاکہ خضوع اور تذلل کو محسوس کرنے کی طرف ترقی حاصل ہو سکے۔
اسرار الحج کے تحت لکھتے ہیں:رُبَّمَا یَشْتَاقُ الْإِنْسَانُ اِلَی رَبِّہ أَشَدَّ شَوْقٍ فَیَحْتَاجُ أِلَی شَیْ یَقْضِیْ بِہ شَوْقَهُ فَلَایَجِدُہ إِلَّا الْحَجَّ (جلد1، صفحہ 75-76)یعنی، کبھی انسان کے اندر اپنے رب کے لیے شدید شوق پیدا ہوتا ہے۔ پس وہ ایک ایسی چیز کا محتاج ہوتا ہے جس سے وہ اپنے شوق کو پورا کرے۔ اس وقت وہ حج کے سوا کوئی اور چیز نہیں پاتا جس سے وہ اپنے شوق کو پورا کرے۔
اسی قسم کی تشریحات پوری کتاب میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر اس قسم کی باتیں شریعت کی و واعظانہ تفہیم ہیں۔ وہ کسی بھی درجہ میں شریعت کی علمی اور عقلی وضاحت نہیں۔ جو لوگ اس کو عقلی وضاحت سمجھیں ان کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’’عقلی وضاحت‘‘ کا مطلب نہیں جانتے۔
حجۃ اللہ البالغہ کو پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس کتاب کے بارے میں میری رائے اور دوسرے علما کی رائے اتنی زیادہ مختلف کیوں ہے۔ آخر کار میری سمجھ میں آیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے علما اس کتاب کو قدیم کے معیار پر دیکھتے ہیں اور میں اس کو جدید کے معیار پر دیکھ رہا ہوں۔ علما کے پاس ایک ہی معلوم معیار ہے اور وہ اسلامی کتب خانہ کی قدیم کتابوں کا ہے۔ اس معیار پر دیکھنے میں حجۃ اللہ البالغہ انھیں ایک منفرد کتاب معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اعلان کر دیتے ہیں کہ وہ ایک معرکۃ الآراء قسم کی عقلی کتاب ہے۔ مگر میں اس کو جدید معیار تحقیق پر جانچتا ہوں تومجھ کو نظر آتا ہے کہ وہ سرے سے کوئی عقلی کتاب ہی نہیں۔
اس کتاب کے مدّاح اگر یہ کہیں کہ قدیم ذخیرۂ کتب کے مقابلہ میں وہ ایک ممتاز کتاب ہے تو مجھے ان سے کوئی اختلاف نہ ہوگا۔ لیکن اگر وہ اس کتاب کو عقلی معیار استدلال کااعلیٰ نمونہ بتائیں تو میری تنقید باقی رہے گی۔ کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کتاب کا عقلی معیار استدلال سے کوئی تعلق نہیں۔
