نوآبادیاتی دور کے علما

علما کے عمل کا تیسرا دور وہ ہے جو، ہماری تقسیم کے مطابق، شاہ عبدالعزیز دہلوی (1762-1823) سے شروع ہوتا ہے۔ اورنگ زیب سے لے کر سید احمد بریلوی تک مسلم رہنماؤں کے ذہن پر مرہٹہ اور جاٹ اور سکھ کا مسئلہ چھایا رہا۔ وہ ان داخلی طاقتوں کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ جہاد میں مشغول رہے۔ بظاہر انہیں اس کا کوئی شعور نہ تھا کہ اصل خطرہ باہر کی نو آبادیاتی قوموں سے ہے جو جدید قوتوں سے مسلح ہو کر نکلی ہیں اور ہندستان سمیت ساری مسلم دنیا عملاً جن کی زد میں آ چکی ہے۔

 یہ مغربی طاقتیں سواحل کے راستہ سے داخل ہو کر بندستان میں اپنا نفوذ بڑھاتی رہیں۔ یہاں تک کہ 1803 میں دہلی کا برائے نام بادشاہ براہ راست برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرپرستیprotection میں آگیا (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، جلد9، صفحہ936) ۔

 جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اس وقت مسلم علما کو اس کی خبر ہوئی۔ اس کے بعد1806 میں شاہ عبدالعزیز دہلوی نے یہ فتویٰ صادر کیا کہ ہندستان دارالحرب ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہاکہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ فرنگی جو دولت کے مالک ہیں، انھوں نے دہلی اور کابل کے درمیان فساد برپا کر دیا ہے:

وَإِنِّي أَرَى الأَفْرَنْجَ أَصْحَابَ ثَرْوَةٍ       لَقَدْ أَفْسَدُوا مَا بَيْنَ دِهْلي وَكابُلْ

 اس کے بعد علما کا سیاسی ٹکراؤ انگریزوں سے شروع ہوگیا۔ افریقہ میں وہاں کے علما اور مصلحین کا ٹکراؤ فرانسیسیوں کے ساتھ ہوا۔ مگر اس ٹکراؤ کے لیے اول دن سے ہی یہ مقدر تھا کہ وہ ناکام ہو۔ کیوں کہ یہ علما اس مسئلہ کو محض اہل فساد کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ باعتبار واقعہ وہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ اہل مغرب جدید علمی اور عملی قوتوں کے مالک ہوگئے ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے اہل مشرق کے اوپر فیصلہ کن فوقیت حاصل کر لی ہے۔ مثلاً1853 میں برٹش انڈیا کمپنی نے ہندستان میں ریلوے لائن بچھانا شروع کر دیا تھا۔ مگر1857 میں جہاد آزادی کے لیے اٹھنے والے علما کو اس زمانی تبدیلی کی خبر نہ ہو سکی۔

یہ ٹکراؤ عملی اور اصولی دونوں پہلوؤں سے نادرست تھا۔ عملی اعتبار سے وہ اس لیے درست نہ تھا کہ یہ لوگ ایک ایسی جنگ لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو اہل اسلام کی یک طرفہ ہلاکت کے سوا کسی اور انجام تک پہنچنے والی نہ تھی۔ کیونکہ علما کے پاس صرف روایتی ہتھیار تھے۔ اور دوسری طرف اہل مغرب سائنٹفک ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ گویا اب دونوں فریقوں کے درمیان ماضی کی طرح صرف کمیاتی فرق نہ تھا، بلکہ ان کے درمیان کیفیاتی فرق پیدا ہو چکا تھا۔ اور جہاں اس قسم کا فرق پایا جائے وہاں جنگی ٹکراؤ چھیڑنا نہ اسلام کے مطابق ہے اور نہ عقل کے مطابق۔

 اصولی اعتبار سے، علما کا یہ کام ہی نہیں کہ وہ سیاسی امور میں عملی طور پر اپنے آپ کو الجھائیں۔ ان کا عملی سیاسیات میں الجھنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ دوسرے زیادہ بنیادی کام ہونے سے رہ جائیں۔ علما کو ہمیشہ تقسیم کار کے اصول پر قائم رہنا چاہیے۔ یعنی وہ سیاسی نزاعات کو اہل سیاست کے حوالے کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہمہ تن علمی، دعوتی، اصلاحی اور تعمیری کاموں میں لگا دیں۔ علما اسی کے اہل ہیں، اور ان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔

 دورِ اول میں خلافت راشدہ کے آخری زمانہ سے لے کر بنواامیہ اور بنو عباس کے آخر زمانہ تک تقریباً چھ سو سال کی مدت ہے۔ اس پوری مدت میں مختلف صورتوں میں داخلی سیاسی لڑائیاں جاری رہیں۔ مگر یہی وہ مدت ہے جب کہ ان تمام علوم کی تدوین عمل میں آئی جن کو اسلامی علوم کہا جاتا ہے۔ سیاسی انتشار کے باوجود یہ تعمیری کام کیوں کر ممکن ہوا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ علما اور اہل علم کا طبقہ ہمیشہ عملی سیاست سے الگ رہ کر علمی کاموں میں مصروف رہا۔ اس حد بندی نے اہل علم کو یہ موقع دیا کہ سیاسی بگاڑ کے باوجود وہ اپنی قوتوں کو بچا کر یکسوئی کے ساتھ علوم کی ترتیب و تدوین کا عظیم کام انجام دے سکیں۔

اسی طرح اسپین(اندلس) کی مسلم سلطنت کی مدت تقریباً آٹھ سو سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں بھی اس پوری مدت میں سیاسی ٹکراؤ اور سیاسی بغاوت کے سلسلے جاری رہے۔ اس کے باوجود عین اسی دور میں مسلم علما اور اہل علم نے جو علمی اور سائنسی خدمات انجام دیں وہ حیرت ناک حد تک عظیم ہیں۔ دوبارہ اس کی وجہ یہ تھی کہ علما اور اہل علم نے اپنے آپ کو علمی سیاست کے ہنگاموں سے دور رکھا اور ہم تن علوم و فنون کی خدمت کرنے میں مشغول رہے۔

 جدید نوآبادیاتی دور میں اگرچہ بیشتر علما کا یہ حال رہا کہ وہ اپنے اصل کام(تعمیر ِشعور) کو چھوڑ کر بے فائدہ قسم کے سیاسی جہاد میں مشغول ہوگئے۔ تاہم اس دور میں چند علما ایسے نظر آتے ہیں جنھوں نے اس حقیقت کو سمجھا کہ علما کا کام لڑائی جھگڑوں میں اپنی قوت ضائع کرنا نہیں ہے۔ بلکہ سیاست سے الگ رہ کر تعمیری شعبوں میں اپنی طاقت لگانا ہے۔ مگر ایسے علما اتنی زیادہ اقلیت میں تھے کہ وہ صورتِ حال کی تبدیلی میں کامیاب نہ ہو سکے۔

1857ء کے زمانہ میں جب علما نے انگریزوں کے لاف جہاد بالسیف کا فیصلہ کیا، اس وقت دیو بند میں ایک بڑے عالم مولانا شیخ محمد صاحب تھے۔ مولانا کی رائے دوسرے عالموں کے بالکل برعکس تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا ہم مسلمانوں پر فرض تو درکنار، موجودہ احوال میں جائز ہی نہیں۔ چنانچہ دیوبند میں ایک مشاورتی اجتماع ہوا۔ اس میںدوسرے علما کے ساتھ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی بھی شریک تھے۔ اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:

’’اس اجتماع میں جہاد کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی، حضرت نانوتوی نے نہایت ادب سے مولانا شیخ محمد صاحب سے پوچھا کہ حضرت کیا وجہ ہے کہ آپ ان دشمنانِ دین و وطن پر جہاد کو فرض بلکہ جائز بھی نہیں فرماتے۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اسلحہ اور آلاتِ جہاد نہیں ہیں۔ ہم بالکل بے سرو سامان ہیں۔ مولانا نوتوی نے عرض کیا کہ کیا اتنا بھی سامان نہیں ہے جتنا کہ غزوہ بدر میں تھا۔ اس پر مولانا شیخ محمد صاحب سکوت فرمایا۔‘‘  (نقشِ حیات،1954ء، جلد 2، صفحہ42)۔

 یہ تقابل بلاشبہ غلط تھا۔ بدر کے موقع پر دونوں فریقوں کے درمیان جو فرق تھا وہ صرف کمیاتی تھا۔ یعنی ایک طرف313 آدمی تھے اور دوسری طرف ایک ہزار آدمی۔ اس کے برعکس1857ء میں دونوں فریقوں کے درمیان کیفیاتی فرق پیدا ہو چکا تھا۔ یعنی ایک طرف دستی ہتھیار تھے اور دوسری طرف دور مار ہتھیار۔ ایک طرف جدید سائنسی طریقوں سے مسلح فوج تھی اور دوسری طرف روایتی طریقوں کی حامل جماعت۔ ایک طرف بّری طاقت کے ساتھ بحری طاقت کا زور شامل تھا اور دوسری طرف صرف بّری طاقت محدود طور پر موجود تھی۔ ایک گروہ کی پشت پر نئے عزائم سے بھرپور ایک قوم تھی اور دوسرے گروہ کی پشت پر صرف ایک زوال یافتہ قوم کے کچھ افراد تھے۔

اس وقت کے علما، جو اس بغاوت میں قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، انھیں اس فرق کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ اگر وہ اس فرق سے پوری طرح واقف ہوتے تو وہ کہتے کہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے صبر ہے، نہ کہ جہاد۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم صبر پر قائم رہ کر تیاری کریں، نہ کہ بے وقت حربی اقدام کرکے اپنی تباہی میں مزید اضافہ کا سبب بن جائیں۔

اس سلسلہ میں علما کی بے خبری کی ایک مہلک مثال یہ ہے کہ مغربی قومیں جدید مواصلات (communication) کے دور میں داخل ہو چکی تھیں۔ مگر معلوم ریکارڈ کے مطابق، علما اس زمانی تبدیلی سے مطلق بے خبر تھے۔ یہ واقعہ ہے کہ1857ء کی جنگ میں جدید مواصلاتی نظام نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جو اس سے پہلے 1851ء میں انڈیا میں لایا جا چکا تھا۔ مگر علما اور ان کے تمام ساتھی اس سے اس درجہ بے خبر تھے کہ ان کے پیدا کردہ پورے لٹریچر میں اس کا ذکر تک موجود نہیں۔

ہیرنشا (1869-1946)ایک برٹش رائٹر ہے۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں بہت سی واقعاتی مثالوں سے بتایا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تاریخ کچھ اور ہوتی۔ اس کی کتاب کا نام ہے  —تاریخ کے اگر:

F.J.C. Hearenshaw, The Ifs of History  (1929)

اس کتاب کے 19ویں باب کا عنوان یہ ہے— اگر خمسینات میں برقی ٹیلی گراف نہ ہوتا:

‘‘If There Had Been No Electric Telegraph in the Fifties’’

اس باب کے تحت مصنف نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے:

‘‘There were in India at the time only 45000 British troops as against more than 250,000 sepoys. Nothing could have saved the lives of any of the British residents, whether military or civilian, in the whole of the Ganges valley; nothing could have prevented the extinction—at any rate temporarily, of the British dominion in Bengal and Oudh if the mutiny had occurred before the installation of the telegraph. By means of wire (which the mutineers were not able to cut), the Governor-General, Lord Canning, sent for reinforcement from England. Again by telegrams, Lord Canning was able to get, and get quickly, invaluable contingents from Madras, from Bombay, London, and Burma. Further, he was in a position to recall a powerful force under General Outram sent on service into Persia. But most decisive of all was his ability to intercept, by an urgent and peremptory message sent by wire to Singapore, a completely equipped expeditionary army of 5000 men which was just on its way under Lord Elgin to deal with trouble in China. From Cape Colony, too, were brought, in response to a cabled appeal, two batteries of artillery, stores, horses and £ 60,000 in gold.’’ (pp. 156-157)

"(1857کی بغاوت کے وقت) انڈیا میں برطانی فوجیوں کی تعداد صرف45 ہزار تھی۔ جب کہ ہندوستانی سپاہیوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ تھی۔ گنگا کی وادی میں مقیم انگریزوں میں سے کسی بھی شخص کو، خواہ وہ فوجی ہو یا غیرفوجی، کوئی چیز بچا نہیں سکتی تھی۔ کوئی بھی چیز، کم ازکم عارضی طورپر، بنگال اور اودھ میں برطانوی غلبہ کے خاتمہ کو روک نہیں سکتی تھی، اگر ایسا ہوتا کہ ٹیلی گراف کا نظام قائم کیے جانے سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔ تار کے ذریعہ(جس کو باغی کاٹ نہیں سکتے تھے) گورنر جنرل، لارڈ کیننگ نے انگلینڈ سے مزید فوج طلب کی۔ اس کے علاوہ لارڈ کیننگ کے لیے ٹیلی گرام ہی کے ذریعہ یہ ممکن ہوا کہ وہ تیزی کے ساتھ مدراس سے بمبئی سے، لندن سے، برما سے قیمتی فوجی دستے حاصل کر سکیں۔ مزید ٹیلی گرام ہی کے ذریعہ انھیں یہ موقع ملا کہ وہ ایران سے اس طاقت ور فوج کو واپس بلا سکیں جو جنرل اوٹرام کی قیادت میں وہاں بھیجی گئی تھی۔ مگر ان سب سے زیادہ فیصلہ کن یہ بات تھی کہ ٹیلی گرام کے ذریعہ ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ ایک فوری اور واجب التعمیل پیغام سنگاپور بھیج کر سازو سامان سے لیس اس پانچ ہزار آدمیوں کی مسلح فوج کو درمیان میں مداخلت کرکے بلا سکیں جو لارڈ ایلگن کی قیادت میں چین جا رہی تھی۔ مزید ٹیلی گرام ہی کے ذریعہ کیپ کالونی سے توپ خانہ کی ڈوبیٹری، اسٹور، گھوڑے اور ساٹھ ہزار پونڈ سونے کی صورت میں منگوائے گئے۔‘‘

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom