دور جدید سے بے خبری

اس سے پہلے میں نے ایک مضمون لکھا تھا۔ یہ مضمون’’دور جدید کو جاننے کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے ہفت روزہ الجمعیۃ(24 نومبر 1967ء) میں چھپا تھا۔ اس میں میں نے لکھا تھا کہ’’دنیا میں فکر و عمل کا جو انقلاب آیا ہے اس نے اسلام کے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں۔ مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اگرچہ امت طویل مدت سے اس سنگین صورت حال سے دو چار ہے۔ مگر آج تک یہ سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ فی الواقع جدید مسئلہ ہے کیا۔‘‘

ندوۃ العلما لکھنؤ نے 1894 میں ملک کے بڑے بڑے علما کی ایک کمیٹی مقرر کی جس کے ذمّہ یہ کام تھا کہ وہ اصلاح نصاب کے سلسلہ میں اپنی سفارشات پیش کرے۔ اس موقع پر مولانا شاہ محمد حسین صاحب نے جو یادداشت پیش کی، اس کا ایک پیرا گراف مطبوعہ روداد کے مطابق یہ تھا:

’’(موجودہ درس نظامیہ کا ایک نقصان یہ ہے کہ) فلسفۂ جدید جو اسلامی اصول پر آج کل حملہ آور ہے، اس کے روک کی کوئی تدبیر نہیں بتائی جاتی۔ لہٰذا میرے نزدیک مناسب ہے کہ کوئی کتاب فلسفہ جدید میں تالیف کی جائے اور اس کی ترکیب آسان یہ ہے کہ ایسے خالص مسلمانوں سے درخواست کی جائے جنہوں نے انگریزی فلسفہ اور انگریزی کی تعلیم اچھی پائی ہو۔ وہ مسائل فلسفہ مخالف ا سلام چھانٹ کر اردو میں ترجمہ کرکے حوالہ ندوۃ العلما کریں۔ ندوۃ العلما اس کا جواب لکھا کر داخل درس کرے کہ ایام تعطیل و اوقات فرصت میں طلبہ اس کو بخوبی دیکھیں۔‘‘

اس تجویز پر تقریباً سو سال گزر چکے ہی۔ مگر اب تک یہ تجویز واقعہ نہ بن سکی۔ ندوۃ العلما نے اپنے دعوے کے مطابق، اس مدت میں بڑی بڑی ترقیاں کی ہیں۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ ندوۃ العلما کا نصاب آج بھی ایسی کسی کتاب سے خالی ہے۔

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے تقسیم ہند سے دس سال پہلے ایک کتاب لکھی جو      ’’تجدید و احیاءِدین‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں وہ شاہ ولی اللہ سے لے کر شاہ اسماعیل تک کی اسلامی تحریکوں کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید جو عملاً اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے اٹھے تھے، انھوں نے سارے انتظامات کیے مگر اتنا نہ کیا کہ اہل نظر علما کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جا رہی ہے اور نئے آلات، نئے وسائل، نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا راز کیا ہے۔ اس کے گھر میں کس نوعیت کے ادارات قائم ہیں۔ اس کے علوم کس قسم کے ہیں۔ اس کے تمدن کی اساس کن چیزوں پر ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے۔‘‘

اس قسم کا احساس مدت سے بار بار ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مگر اب تک کوئی بھی قابل ذکر عالم ایسا نہیں نکلا جو فی الواقع اس تحقیقی مقصد کے تحت مغربی دنیا کا سفر کرے یا اس خاص مقصد کے لیے مغربی لٹریچر کا گہرا اور موضوعی مطالعہ کرے۔ موجودہ زمانہ میں سفروں کے بڑھنے کی بنا پر کچھ علما کو یہ موقع ملا کہ وہ یورپ اور امریکہ کے شہروں میں جائیں۔ مگر اس جانے کا کوئی بھی تعلق مذکورہ تحقیقی مقصد سے نہیں ہے۔ یہ تمام لوگ جو بظاہر یورپ یا امریکہ جاتے ہیں وہ حقیقتاً یورپ یا امریکہ نہیں جاتے بلکہ یورپ  اور امریکہ کے کچھ مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں۔ ان جانے والوں کا مغربی دنیا سے کوئی حقیقی ربط قائم نہیں ہوتا اور نہ وہ وہاں کے اصل حالات کی تحقیق کے لیے کوئی کوشش اور جدوجہد کرتے۔

یہاں دو کتابوں کی مثال لیجئے۔ ایک سید قطب کی کتاب:أَمْرِيكَا الَّتِيْ رَأَيْتُ  (امریکہ جس کو میں نے دیکھا) ،اور دوسری کتاب مولانا ابوالحسن علی ندوی کے سفر مغرب کی مفصل روداد جو’’دو مہینے امریکہ میں‘‘ (1978)کے نام سے چھپی ہے۔ ان دونوں کتابوں کا کوئی تعلق امریکی زندگی کے گہرے مطالعہ سے نہیں۔ مثال کے طور پر’’دو مہینے امریکہ میں‘‘ کو ایک شخص پڑھتا ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر پاتا ہے کہ صاحب سفر کے دو مہینے امریکہ میں گزر جاتے ہیں مگر اس لمبی مدت میں اس کی کسی اصل امریکی سے ملاقات تک نہیں ہوتی۔ نہ امریکی نظریہ حیات کو سمجھنے کے لیے وہ وہاں کے کسی ادارہ کا گہرا مطالعہ کرتا۔

ان کتابوں کو پڑھ کر کوئی شخص مغرب کے بارے میں سطحی قسم کا کچھ منفی تاثر تو ضرور لے سکتا ہے۔ مگر ان کو پڑھنے والا یہ نہیں جان سکتا کہ امریکہ کی قوت کا راز کیا ہے۔ اور اس کا وہ فکری اثاثہ کیاہے جس کے اوپر اس کے نظریاتی ڈھانچہ کی تشکیل ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے علما مغربی افکار کو سرے سے جانتے ہی نہیں۔ ناقص معلومات کی بنا پر ہمارے علما کے ذہن میں مغربی انسان کی اسی طرح غلط تصویر بن گئی ہے جس طرح قدیم مستشرقین کے ذہن میں اسلام کی بالکل غلط تصویر بن گئی تھی۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مغربی انسان عقل پرست ہوتا ہے۔ وہ بے قید آزادیِ فکر کا قائل ہے۔ ایک عالم کے الفاظ میں، مغربی انسان کا کلمہ ہے— لَامَوْجُودَ الَّاالْعَقْلۡ۔

مگر یہ مغربی تعقل کی نہایت غلط تعبیر ہے۔ مغربی انسان بے قید فکر کو نہیں بلکہ تحقیقی فکر کو عقل سمجھتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں اعتقادی مسلمات یا بدیہیات کی بنیاد پر استدلال کیا جاتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں عقلی غور و فکر کا معیار یہ ہے کہ کسی بھی عقیدہ یا نظریہ کو پیشگی مسلّمہ کے طور پر نہ مانا جائے، بلکہ واقعات و حقائق کی روشنی میں پرکھ کر اس کے بارے میں ایک رائے قائم کی جائے۔

مزید یہ کہ یہ تصور عقل ہمارے لیے انتہائی مفید ہے۔ کیوں کہ اسلام کی بنیاد محکم حقائق پر ہے اور دوسرے مذاہب اپنی موجودہ صورت میں مفروضات اور توہمات پر قائم ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ زمانہ میں مذکورہ عقلی تصور کے تحت تمام مذاہب کی مقدس کتابوں کی علمی تحقیق کی جانے لگی۔ اس تحقیق میں مغربی علما نے جس طرح دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں کی علمی جانچ کی۔ اسی طرح انھوں نے قرآن کی بھی علمی جانچ کی۔

 قدیم زمانہ میں موجودہ بائبل کو مسلّم طور پر خدا کا کلام مان لیا گیا تھا۔ اس کو علمی تحقیق کے بغیر مقدس کلام کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ اب جدید معیار عقل کے مطابق بائبل کے متن کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے بعد عین علم انسانی کی سطح پر یہ ثابت ہوگیا کہ موجودہ بائبل تاریخی حیثیت سے ایک غیر معتبر کتاب ہے۔ دوسری طرف اس علمی تحقیق نے قرآن کے بارے میں ثابت کیا کہ اس کو مکمل طور پرتاریخی اعتباریت حاصل ہے۔ علما اگر مغربی فکر کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے تو اس کو اپنے لیے عین مفید سمجھ کر اس کا استقبال کرتے۔ مگر سطحی معلومات کی بنا پر وہ اس کے مخالف بن گئے اور اس کا مذاق اڑانے لگے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom